آیت 78
 

وَ مِنۡہُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ان میں کچھ ایسے ناخواندہ لوگ ہیں جو کتاب (توریت) کو نہیں جانتے سوائے جھوٹی آرزوؤں کے اور بس وہ اپنے خیال خام میں رہتے ہیں۔

تشریح کلمات

اُمِّیُّوۡنَ:

(ا م م) اُمِّی کی جمع ہے۔ یعنی ’’ناخواندہ‘‘ اور ’’ان پڑھ‘‘۔ یہ لفظ ام سے مشتق ہے، کیونکہ انسان مادر زاد ان پڑھ ہی ہوتا ہے۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ لفظ اُمِّی امت (عوام) کی طرف منسوب ہو، کیونکہ اس زمانے میں عام لوگ ان پڑھ ہوتے تھے اور پڑھے لکھے لوگ خواص میں شمار ہوتے تھے۔

تفسیر آیات

تعلیم یافتہ یہودی طبقے کی منافقت اور ان کی خفیہ تنظیموں کا پردہ چاک کرنے کے بعد ان کے ناخواندہ (ان پڑھ) طبقے کا حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے توریت کو اپنی غلط اور جھوٹی آرزؤں کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ مثلاً:

وَ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدَۃً {۲ بقرۃ : ۸۰}

ہمیں تو جہنم کی آگ گنتی کے چند دنوں کے علاوہ چھو نہیں سکتی۔

وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی {۲ بقرۃ : ۱۱۱}

جنت میں یہودی یا نصرانی کے علاوہ کوئی ہرگز داخل نہیں ہو سکتا۔

نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ {۵ مائدہ : ۱۸}

ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔

یاد رہے کہ جھوٹی آرزوئیں اور بے بنیاد تمنائیں ناخواندہ اور ان پڑھ یہودیوں کا خاصہ تھیں۔ جیسا کہ ہر قوم کے ناخواندہ افراد ایسے ہی غلط اور فضول خیالات کی بنا پر بہک جاتے ہیں۔

مرحوم علامہ سید علی نقی نقویؒ اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

اب جائزہ لے لیجیے کہ سو فیصدی وہی خیالات اسلامی جماعت کے بہت سے افراد میں سرایت کیے ہوئے ہیں یا نہیں؟ ان کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ نجات کے لیے فرائض و اعمال، اخلاق حسنہ اورتکمیل نفس کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔ حالانکہ اسلام، ایمان، محبت اہل البیتؑ اور ولایت علی ابن ابی طالب(ع) ہر چیز کا لازمی نتیجہ اطاعت و اتباع ہے، جو استحقاق نجات کے لیے ضروری ہے۔ {فصل الخطاب ج ۱۔ اس آیت کے ذیل میں}

اہم نکات

۱۔ جھوٹی آرزؤں کو ذریعہ تسکین قرار دینا ناخواندہ افراد کا شیوہ ہے۔

۲۔ جاہ پسندی سے مسائل اور مشکلات جنم لیتی ہیں۔

تحقیق مزید: مستدرک الوسائل ۱۱ : ۲۰۶۔ بحار الانوار ۲ : ۸۶۔ الاحتجاج ۲ : ۴۵۶۔


آیت 78