آیت 74
 

ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً ؕ وَ اِنَّ مِنَ الۡحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنۡہُ الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕوَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ پھر اس کے بعد بھی تمہارے دل سخت رہے، پس وہ پتھر کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے، کیونکہ پتھروں میں سے کوئی تو ایسا ہوتا ہے جس سے نہریں پھوٹتی ہیں اور کوئی ایسا ہے کہ جس میں شگاف پڑ جاتا ہے تو اس سے پانی بہ نکلتا ہے اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو ہیبت الٰہی سے نیچے گر پڑتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔

تشریح کلمات

قَسَتۡ:

( ق س و ) قَسۡوَۃً قساوت، سخت دل ہونا۔

یَتَفَجَّرُ:

( ف ج ر ) راہ کھولنا، یکے بعد دیگرے نکل آنا، پھوٹنا، شق ہونا، فاش ہونا۔

فَجر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ رات کا پردہ چاک کرتی ہے۔ گناہ کو اس لیے فجور کہتے ہیں کہ اس کا ارتکاب کرنے سے گناہ گار کا ضمیر فاش اور اس کا پردہ چاک ہو جاتا ہے۔

نھر:

( ن ھ ر ) پانی بہنے کا راستہ، وسعت، جھڑکنا: وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ ۔ {۹۳ ضحی: ۱۰} سائل کو مت جھڑکو۔ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا {۱۷ بنی اسرائیل: ۲۳} والدین کو نہ جھڑکو۔

یَشَّقَّقُ:

( ش ق ق ) شق شگافتہ ہونا، ایک قطعہ بھی شق کہلاتا ہے۔ اسی لیے آج کل فلیٹ کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے۔ شقاق مخالفت: وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ ۔۔ {۴ نساء: ۱۱۵} اور جو رسول کی مخالفت کرے۔ شقشقۃ ۔ اونٹ کا بلبلانا۔

خَشۡیَۃ:

( خ ش ی ) ایسا خوف جس میں تعظیم کا شائبہ بھی ہو : اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا {۳۵ فاطر : ۲۸} اللہ کے بندوں میں سے صرف اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں۔

تفسیر آیات

بنی اسرائیل کی سنگدلی کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ وہ اللہ کی واضح نشانیاں دیکھنے، حق ثابت ہونے، توحید و رسالت پر کافی دلائل کا مشاہدہ کرنے اور حجت خدا پوری ہونے کے بعد بھی ہدایت نہ پا سکے۔

جب حضرت موسیٰ (ع) نے اللہ کو ایک نظر دیکھنے کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَنۡ تَرٰىنِیۡ ۔۔ {۷ اعراف: ۱۴۳} تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔ البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو۔ اگر اس میں استقرار آگیا تو مجھے دیکھ سکو گے:

فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۔ {۷ اعراف: ۱۴۳}

جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے۔

دوسری جگہ ارشاد ہے:

لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ۔ {۵۹ حشر : ۲۱}

اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اسے اللہ کے خوف سے جھک کر پاش پاش ہوتا ضرور دیکھتے۔

بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے پہاڑ کو ریزہ ریزہ ہوتے اور چٹان سے بارہ چشموں کو پھوٹتے ہوئے دیکھا تھا، لیکن ان کے دلوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ـ وہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت رہے۔

اس آیت اوردیگر شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جمادات بھی ایک حد تک شعور رکھتی ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے :

وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ {۱۷ بنی اسرائیل : ۴۴}

اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثنا میں تسبیح نہ کرتی ہو، لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔

اہم نکات

۱۔ گمراہ انسان اتنا بھی اثر پذیر نہیں ہوتا، جس قدر جمادات اثر پذیر ہوتی ہیں۔

۲۔ پتھر بھی اپنے پتھریلے دل میں خوف خدا رکھتا ہے۔

تحقیق مزید: بحار الانوار ۹ : ۳۱۲۔


آیت 74