آیات 67 - 71
 

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖۤ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تَذۡبَحُوۡا بَقَرَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا ؕ قَالَ اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : خدا تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے، وہ بولے: کیا آپ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں؟ (موسیٰ نے) کہا: پناہ بخدا! میں (تمہارا مذاق اڑا کر) جاہلوں میں شامل ہو جاؤں؟

قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ؕ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکۡرٌ ؕ عَوَانٌۢ بَیۡنَ ذٰلِکَ ؕ فَافۡعَلُوۡا مَا تُؤۡمَرُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔وہ بولے:اپنے رب سے ہماری خاطر درخواست کیجیے کہ وہ ہمیں بتائے کہ گائے کیسی ہو، کہا: وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ بوڑھی ہو اور نہ بچھیا، (بلکہ) درمیانی عمر کی ہو، پس جس بات کا تمہیں حکم دیا گیا ہے، اب اسے بجا لاؤ۔

قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا لَوۡنُہَا ؕ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفۡرَآءُ ۙ فَاقِعٌ لَّوۡنُہَا تَسُرُّ النّٰظِرِیۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ کہنے لگے: اپنے رب سے ہمارے لیے درخواست کیجیے کہ وہ ہمیں بتائے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہو؟ کہا: وہ فرماتا ہے کہ اس گائے کا رنگ گہرا زرد اور دیکھنے والوں کے لیے فرحت بخش ہو۔

قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ۙ اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا ؕ وَ اِنَّاۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ لَمُہۡتَدُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔انہوں نے کہا: اپنے رب سے (پھر) درخواست کیجیے کہ وہ ہمیں بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ گائے ہم پر مشتبہ ہو گئی ہے اور اگر خدا نے چاہا تو ہم اسے ضرور ڈھونڈ لیں گے۔

قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوۡلٌ تُثِیۡرُ الۡاَرۡضَ وَ لَا تَسۡقِی الۡحَرۡثَ ۚ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیۡہَا ؕ قَالُوا الۡـٰٔنَ جِئۡتَ بِالۡحَقِّ ؕ فَذَبَحُوۡہَا وَ مَا کَادُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ﴿٪۷۱﴾

۷۱۔( موسیٰ نے ) کہا: اللہ فرماتا ہے کہ وہ گائے ایسی سدھائی ہوئی نہ ہو جو ہل چلائے اور کھیتی کو پانی دے (بلکہ) وہ سالم ہو، اس پر کسی قسم کا دھبہ نہ ہو، کہنے لگے:اب آپ نے ٹھیک نشاندہی کی ہے، پھر انہوں نے گائے کو ذبح کر دیا حالانکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں لگتے تھے۔

تشریح کلمات

بَقَرَۃٌ:

( ب ق ر )گائے اور بیل کے لیے یہ لفظ مشترک ہے۔ کہتے ہیں کہ جس طرح اونٹنی کے لیے ناقۃ اور اونٹ کے لیے جَمل الگ لفظ ہیں، اسی طرح گائے کے لیے بَقرۃ اور بیل کے لیے ثَور کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

بَقرۃ یعنی شگاف ڈالنا۔ گائے بیل کو بَقرۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ زراعت کرتے وقت ہل کے ذریعے زمین کو شق کرنے اور اس میں شگاف ڈالنے کے لیے ان سے مدد لی جاتی ہے۔

ہُزُوًا:

( ھ ز و ) الھزو ۔ مذاق اڑانا۔

فَارِضٌ:

( ف ر ض ) حیوان فَارض۔ ایسا حیوان جو عمر رسیدہ یا کمزور ہونے کی وجہ سے جوتنے کے قابل نہ رہے۔

بِکۡرٌ:

( ب ک ر ) ہر چیز کا آغاز۔

عَوَانٌ:

( ع و ن ) درمیانی، جوانی اور پیری کا درمیانی حصہ۔

ذَلُوۡلٌ:

( ذ ل ل ) رام۔ مسخر۔

تُثِیۡرُ:

( ث و ر ) برانگیختہ کرنا۔ زیر و زبر کرنا۔ انقلاب کو ثَورۃ کہتے ہیں۔

الۡحَرۡثَ:

( ح ر ث ) کھیتی۔

مُسَلَّمَۃٌ:

( س ل م ) سالم، بے عیب۔

شِیَۃَ:

( و ش ی ) داغ، خال (تل)، دھبہ۔

تفسیر آیات

یہاں سے بقرۃ یعنی گائے کا قصہ شروع ہوتا ہے جس کے ذکر کی وجہ سے اس سورے کا نام سورۃ بَقَرۃ رکھا گیا ہے۔

قصہ یہ ہے:

بنی اسرائیل کا ایک شخص قتل ہو گیا۔ قتل کا سراغ نہیں مل رہا تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (ع) نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ وہ ایک گائے ذبح کریں اور اس کا ایک حصہ مقتول کی لاش پر ماریں تاکہ وہ زندہ ہو جائے اور قاتل کی نشاندھی کر دے۔

واقعاتی ترتیب کے لحاظ سے پہلے قتل کا اور بعد میں گائے ذبح کرنے کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ یہاں آدمی کا قتل محل کلام نہیں بلکہ گائے ذبح کرنے کے سلسلے میں اسرائیلیوں کے لیت و لعل اور ان کی سرکشی و نافرمانی کا بیان مقصود ہے، اس لیے گائے کا واقعہ پہلے مذکور ہوا۔ علاوہ ازیں سبب کے عدم بیان سے ایک تجسس پیدا ہو جاتا ہے کہ آخر گائے ذبح کرنے کا حکم کس لیے دیا جا رہا ہے؟

قَالُوۡۤا اَتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا احکام دین کی تبلیغ کے سلسلے میں انبیاء علیہم السلام سے مذاق، استہزاء اور تمسخر ہوتا رہا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ آیت کی روسے حضرت موسیٰ (ع) نے اس عمل کو جاہلانہ قرار دے کر جاہلانہ باتوں سے برائت کا اظہار کیا۔ اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں۔

فَذَبَحُوۡہَا بنی اسرائیل کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ وہ لوگ اگر حکم کی تعمیل میں مخلص ہوتے تو فوراً ایک گائے ذبح کر دیتے، لیکن وہ فرمانبرداری پر قلباً آمادہ نہیں تھے۔ اس لیے وہ طرح طرح کی حیل و حجت کرنے لگے۔ اس حکم سے پہلوتہی کی خاطر انہوں نے طرح طرح کے سوالات کیے۔ جب ان کے ہر بہانے کا جواب دیا گیا تو انہوں نے یہ کہ کر ٹالنے کی کوشش کی: اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا "گائے ہم پر مشتبہ ہو گئی" اور جب اس کا جواب بھی تفصیل سے ملا اور کسی قسم کے اشتباہ اور حیلے بہانے کی گنجائش نہ رہی تو مجبوراً گائے ذبح کرنی ہی پڑی۔ ’’حالانکہ ایسا کرنے کی امید نہ تھی۔‘‘

اہم نکات

۱۔ تعمیل حکم میں بہانہ جوئی کی وجہ سے جرم سنگین ہو جاتا ہے: وَ مَا کَادُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ۔

۲۔ تبلیغ انبیاء علیہم السلام میں مذاق و استہزاء کی کوئی گنجائش نہیں: قَالَ اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ ۔۔۔۔

تحقیق مزید: آیت ۶۷ العیون۲: ۱۳۔ آیت ۶۹ الکافی ۶ : ۴۶۶۔ تفسیر القمی۱: ۴۹ آیت ۷۔ التہدیب ۹: ۵۳۔


آیات 67 - 71