گزشتہ اقوام کے بارے میں خبر دینا


وَ مَا کُنۡتَ بِجَانِبِ الۡغَرۡبِیِّ اِذۡ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسَی الۡاَمۡرَ وَ مَا کُنۡتَ مِنَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ اور آپ اس وقت (طور کے) مغربی جانب موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کی طرف حکم بھیجا اور آپ مشاہدہ کرنے والوں میں سے نہ تھے۔

44۔ مکہ والوں کے حسی مشاہدے کے مطابق آپ ﷺ اس وقت موجود نہ تھے جب اللہ طور کی مغربی جانب موسیٰ علیہ السلام کو شریعت دے رہا تھا۔ اس کے باوجود آپ ﷺ قرآن کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کے حالات اس طرح بیان کر رہے ہیں جیسا کہ آپ ﷺ وہاں موجود تھے۔ واضح رہے یہ جگہ حجاز کی مغربی جانب واقع ہے۔

وَ مَا کُنۡتَ بِجَانِبِ الطُّوۡرِ اِذۡ نَادَیۡنَا وَ لٰکِنۡ رَّحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰىہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور آپ طور کے کنارے پر موجود نہ تھے جب ہم نے ندا دی تھی بلکہ (آپ کا رسول بنانا) آپ کے رب کی رحمت ہے تاکہ آپ اس قوم کو تنبیہ کریں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

46۔ مشرکین مکہ کی معلومات کے مطابق آپ ﷺ ان تمام مقامات پر موجود نہ تھے اور ان پر طویل مدت بھی گزر گئی تھی اور مکہ کی ان پڑھ قوم میں ان واقعات کا علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا، پس اگر یہ قرآن وحی الہٰی نہیں ہے تو کون سا ذریعہ ممکن ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی ذریعہ موجود ہوتا تو آج کے مستشرقین سے کہیں زیادہ مکہ کے مشرکین کو اس کی ضرورت تھی۔ وہ اسے برملا کر دیتے اور جنگ کرنے کی نوبت نہ آتی۔

عربوں میں حضرت ہود، صالح، شعیب اور اسماعیل علیہم السلام کے بعد سینکڑوں سالوں سے کوئی نبی نہیں آیا۔ البتہ باہر کے انبیاء کی دعوتیں پہنچتی رہیں اور حجت تمام ہوتی رہی۔