تجارت کے اسلامی اصول


بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۬ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اللہ کی طرف سے باقی ماندہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور میں تم پر نگہبان تو نہیں ہوں۔

86۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو جہاں الٰہی اقدار سے روشناس کرانے کی کوشش کی وہاں ان کو نا جائز ذرائع سے کمانے اور معاشرے میں معاشی بگاڑ پیدا کرنے سے روکا۔ آپ نے انہیں جائز منافع پر اکتفا کرنے کی نصیحت کی۔ اس آیت میں عادلانہ معاملات کے ذریعے حاصل شدہ جائز منافع کو بَقِیَّتُ اللّٰہِ سے تعبیر کرنا یہ بتاتا ہے کہ کسی مومن تاجر کے لیے جائز ذرائع سے حاصل ہونے والا منافع اللہ کی عنایت اور اس کی طرف سے بقا کا ضامن ہے۔

وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ﴿۱۸۳﴾ۚ

۱۸۳۔اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔

183۔ مدین تجارتی قافلوں کی گزر گاہ پر آباد تھا۔ اس لیے ناپ تول میں خیانت نہ کرنے کے حکم کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

مدین، حجاز اور شام کے درمیان تجارت کی ایک اہم منڈی تھی۔ اس لیے یہاں سے تجارتی قافلوں کا گزر ہوتا تھا۔ حجاز والے شام سے آنے والی اشیاء اور شام والے حجاز سے آنے والی اشیاء خریدتے ہوں گے اور اس سلسلے میں جو خلاف ورزیاں سرزد ہوا کرتی تھیں، ان کے لیے حکم ہوا اول پیمانہ پورا بھرو، دوم سیدھی ترازو سے تولا کرو، سوم دھوکہ دہی سے باز آجاؤ کہ لوگوں کو مطلوبہ چیز کی جگہ ناقص چیز دے کر نقصان میں نہ ڈالو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک پیمانے کے اعتبار سے پورا ہو اور وزن کے اعتبار سے بھی درست ہو لیکن مال ناقص ہو۔ اس کے لیے لَا تَبۡخَسُوا فرمایا۔ چہارم یہ کہ زمین میں فساد نہ پھیلایا کرو۔ تجارت میں اعتدال سے تجاوز کرنا دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا، فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ ہے۔ اس جگہ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اقتصادی انحرافات سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ صَدَقَ اللّٰہُ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ۔ آج کے استحصالیوں نے اقتصادی ذرائع سے زمین کو فساد سے پر کیا ہے۔