وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ﴿۱۸۳﴾ۚ

۱۸۳۔اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔

183۔ مدین تجارتی قافلوں کی گزر گاہ پر آباد تھا۔ اس لیے ناپ تول میں خیانت نہ کرنے کے حکم کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

مدین، حجاز اور شام کے درمیان تجارت کی ایک اہم منڈی تھی۔ اس لیے یہاں سے تجارتی قافلوں کا گزر ہوتا تھا۔ حجاز والے شام سے آنے والی اشیاء اور شام والے حجاز سے آنے والی اشیاء خریدتے ہوں گے اور اس سلسلے میں جو خلاف ورزیاں سرزد ہوا کرتی تھیں، ان کے لیے حکم ہوا اول پیمانہ پورا بھرو، دوم سیدھی ترازو سے تولا کرو، سوم دھوکہ دہی سے باز آجاؤ کہ لوگوں کو مطلوبہ چیز کی جگہ ناقص چیز دے کر نقصان میں نہ ڈالو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک پیمانے کے اعتبار سے پورا ہو اور وزن کے اعتبار سے بھی درست ہو لیکن مال ناقص ہو۔ اس کے لیے لَا تَبۡخَسُوا فرمایا۔ چہارم یہ کہ زمین میں فساد نہ پھیلایا کرو۔ تجارت میں اعتدال سے تجاوز کرنا دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا، فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ ہے۔ اس جگہ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اقتصادی انحرافات سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ صَدَقَ اللّٰہُ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ۔ آج کے استحصالیوں نے اقتصادی ذرائع سے زمین کو فساد سے پر کیا ہے۔