مشرکین مکہ کے حالات


اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ وَ الطَّاغُوۡتِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہٰۤؤُلَآءِ اَہۡدٰی مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سَبِیۡلًا﴿۵۱﴾

۵۱۔ کیا آپ نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے؟ جو غیر اللہ معبود اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں: یہ لوگ تو اہل ایمان سے بھی زیادہ راہ راست پر ہیں۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ یَّلۡعَنِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۵۲﴾

۵۲۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے اس کے لیے آپ کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔

51۔ 52۔اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفار قریش نے یہود کی ایک جماعت سے پوچھا کہ تم اہل کتاب ہو،بتاؤ ہمارا دین برحق ہے یا محمد ﷺ کا دین؟ یہود کی اس جماعت نے کہا : تمہارا دین زیادہ ہدایت یافتہ اور راہ راست پر ہے۔

جبت پر ایمان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ لیکن اگر جبت کا مطلب، بے اصل اور بے بنیاد چیز لیا جائے تو تمام اقوال میں کچھ چیزیں قدر مشترک کے طور پر سامنے آتی ہیں، جن میں بت، سحر، شیطان، اوہام پرستی اور بدشگونی وغیرہ، یعنی وہ چیزیں جو حقیقت پر مبنی نہیں، شامل ہیں۔

الطَّاغُوۡتِ سے مراد وہ قوتیں ہیں جو حدود اللہ اور احکام شریعت کے مقابلے میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ آیت میں جبت اور طاغوت پر ایمان لانے والوں اور کافروں کو اہل ایمان سے زیادہ ہدایت یافتہ قرار دینے والوں کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔

اَمۡ لَہُمۡ نَصِیۡبٌ مِّنَ الۡمُلۡکِ فَاِذًا لَّا یُؤۡتُوۡنَ النَّاسَ نَقِیۡرًا ﴿ۙ۵۳﴾

۵۳۔ کیا حکومت میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ (دوسرے) لوگوں کو کوڑی برابر بھی نہ دیتے۔

53۔ نَقِیۡرًا :کھجور کی گٹھلی کے گڑھے کو کہتے ہیں اور نہایت حقیر چیز کے لیے ضرب المثل ہے۔

یہ لوگ جو فیصلہ سنارہے ہیں کہ کون ہدایت پر ہے، انہیں یہ فیصلہ سنانے کا حق اور اختیار کس نے دیا ہے؟ اگر اس قسم کے فیصلے کا حق اور اختیار ان کے پاس ہوتا تو یہ اس قدر کم ظرف اور تنگ نظر ہیں کہ کسی دوسرے کو ایک ذرہ برابر بھی انصاف نہ دیتے۔

اَمۡ یَحۡسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰی مَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۚ فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا﴿۵۴﴾

۵۴۔کیا یہ( دوسرے) لوگوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے؟ (اگر ایسا ہے) تو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انہیں عظیم سلطنت عنایت کی۔

54۔ سابقہ آیت میں مذکور اہل کتاب کا یہ فیصلہ کہ مشرکین کا مذہب مسلمانوں سے زیادہ ہدایت پر ہے، اس حسد پر مبنی ہے کہ جو اہل کتاب آل اسماعیل سے، بالخصوص رسول خاتم ﷺ سے رکھتے ہیں۔

مُّلۡکًا عَظِیۡمًا : جس حکومت اور امامت کو اللہ نے عظیم کہا ہے وہ اپنی وسعت مکانی، وسعت زمانی اور وسعت معنوی کے اعتبار سے نہایت عظیم ہے، چونکہ نبوت الہٰی اور ولایت حقیقی کا دائرہ پوری کائنات تک پھیلا ہوا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: نحن الناس المحسدون (شواہد التنزیل 1 : 183) وہ لوگ جن سے یہود حسد کرتے ہیں ہم ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کے نام ایک خط میں لکھا: نحن آل ابراہیم المحسدون و انت الحاسد لنا ۔ (الغارات 1: 115)۔