اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ یقینا وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

وَ بَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی بشارت دی کہ وہ صالحین میں سے نبی ہوں گے۔

112۔ اس عظیم قربانی کے ذکر کے بعد حضرت اسحاق علیہ السلام کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے پہلے جس فرزند کی قربانی کا ذکر ہوا وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔ پس یہ نظریہ درست ثابت نہیں ہوتا کہ وہ حضرت اسحاق علیہ السلام تھے۔

مسلمانوں کی روایات میں حضرت اسحاق علیہ السلام کے ذبیح اللہ ہونے کا اصل مصدر کعب احبار ہے۔ یہ یہودی حضرت عمر کے زمانے میں مسلمان ہوا اور دربار خلافت میں مقام حاصل کیا اور یہودی روایات سنایا کرتا تھا۔ خود حضرت عمر بھی ان روایات کو سنا کرتے تھے۔ اس یہودی کو سرکار کی طرف سے رسمیت ملنے پر دوسرے بھی اس شخص کی روایات سننے اور نقل کرنے لگے۔ اس طرح اسرائیلیات کو اسلامی روایات میں داخل ہونے کا موقع میسر آیا۔

وَ بٰرَکۡنَا عَلَیۡہِ وَ عَلٰۤی اِسۡحٰقَ ؕ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہِمَا مُحۡسِنٌ وَّ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ مُبِیۡنٌ﴿۱۱۳﴾٪

۱۱۳۔ اور ہم نے ان پر اور اسحاق پر برکات نازل کیں اور ان دونوں کی اولاد میں نیکی کرنے والا بھی ہے اور اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا بھی ہے۔

وَ لَقَدۡ مَنَنَّا عَلٰی مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ﴿۱۱۴﴾ۚ

۱۱۴۔ اور بتحقیق موسیٰ اور ہارون پر ہم نے احسان کیا۔

وَ نَجَّیۡنٰہُمَا وَ قَوۡمَہُمَا مِنَ الۡکَرۡبِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۱۱۵﴾ۚ

۱۱۵۔ اور ان دونوں کو اور ان دونوں کی قوم کو عظیم مصیبت سے ہم نے نجات دی۔

وَ نَصَرۡنٰہُمۡ فَکَانُوۡا ہُمُ الۡغٰلِبِیۡنَ﴿۱۱۶﴾ۚ

۱۱۶۔ اور ہم نے ان کی مدد کی تو وہی غالب آنے والے ہو گئے۔

وَ اٰتَیۡنٰہُمَا الۡکِتٰبَ الۡمُسۡتَبِیۡنَ﴿۱۱۷﴾ۚ

۱۱۷۔ اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب دی۔

وَ ہَدَیۡنٰہُمَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ﴿۱۱۸﴾ۚ

۱۱۸۔ اور ان دونوں کو سیدھا راستہ ہم نے دکھایا۔

وَ تَرَکۡنَا عَلَیۡہِمَا فِی الۡاٰخِرِیۡنَ﴿۱۱۹﴾ۙ

۱۱۹۔ اور ہم نے آنے والوں میں ان دونوں کے لیے (ذکر جمیل) باقی رکھا۔

سَلٰمٌ عَلٰی مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ﴿۱۲۰﴾

۱۲۰۔موسیٰ اور ہارون پر سلام ہو۔