وَ بُرِّزَتِ الۡجَحِیۡمُ لِلۡغٰوِیۡنَ ﴿ۙ۹۱﴾

۹۱۔ اور جہنم گمراہوں کے لیے ظاہر کی جائے گی۔

90۔ 91۔ عالم آخرت میں زمان و مکان کا وہ تصور نہ ہو گا جو عالم دنیا میں ہے۔ ”جنت کا نزدیک کرنا“ بتاتا ہے کہ وہاں مسافتوں کا وہ مفہوم نہ ہو گا جو یہاں ہے۔ جہنم کے بارے میں فرمایا : ”ظاہر کر دی جائے گی“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہنم کسی فاصلے پر نہیں ہے۔

وَ قِیۡلَ لَہُمۡ اَیۡنَمَا کُنۡتُمۡ تَعۡبُدُوۡنَ ﴿ۙ۹۲﴾

۹۲ ۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا : تمہارے وہ معبود کہاں ہیں؟

مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ ہَلۡ یَنۡصُرُوۡنَکُمۡ اَوۡ یَنۡتَصِرُوۡنَ ﴿ؕ۹۳﴾

۹۳۔ اللہ کو چھوڑ کر (جنہیں تم پوجتے تھے) کیا وہ تمہاری مدد کر رہے ہیں یا خود کو بچا سکتے ہیں؟

فَکُبۡکِبُوۡا فِیۡہَا ہُمۡ وَ الۡغَاوٗنَ ﴿ۙ۹۴﴾

۹۴۔ چنانچہ یہ خود اور گمراہ لوگ منہ کے بل جہنم میں گرا دیے جائیں گے۔

وَ جُنُوۡدُ اِبۡلِیۡسَ اَجۡمَعُوۡنَ ﴿ؕ۹۵﴾

۹۵۔ اور سارے ابلیسی لشکر سمیت۔

قَالُوۡا وَ ہُمۡ فِیۡہَا یَخۡتَصِمُوۡنَ ﴿ۙ۹۶﴾

۹۶ ۔ اور وہ اس میں جھگڑتے ہوئے کہیں گے:

96۔ جھگڑا اور خصومت ناکامی کا لازمی نتیجہ ہے چنانچہ جہنم والوں کے باہمی جھگڑوں کو ایک ضرب المثل کے طور پر بیان فرماتا ہے: تَخَاصُمُ اَہۡلِ النَّارِ جبکہ ادھر جنت والے آپس میں سلام سلام کہ رہے ہوں گے۔

تَاللّٰہِ اِنۡ کُنَّا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۹۷﴾

۹۷۔ قسم بخدا! ہم تو صریح گمراہی میں تھے۔

اِذۡ نُسَوِّیۡکُمۡ بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔ جب ہم تمہیں رب العالمین کے برابر درجہ دیتے تھے۔

98۔ قیامت کے دن ان پر یہ راز کھلے گا۔ تدبیر کائنات میں کسی غیر اللہ کو رب العالمین کا مقام دینا صریح گمراہی تھی۔

وَ مَاۤ اَضَلَّنَاۤ اِلَّا الۡمُجۡرِمُوۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔ اور ہمیں تو ان مجرموں نے گمراہ کیا ہے۔

فَمَا لَنَا مِنۡ شَافِعِیۡنَ﴿۱۰۰﴾ۙ

۱۰۰۔ (آج) ہمارے لیے نہ تو کوئی شفاعت کرنے والا ہے،