وَ اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوۃِ ٭ۖ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ اِنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ کَانُوۡا لَکُمۡ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔اور جب تم زمین میں سفر کے لیے نکلو تو اگر تمہیں کافروں کے حملے کا خوف ہو تو تمہارے لیے نماز قصر پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ کافر لوگ یقینا تمہارے صریح دشمن ہیں۔

101۔ فقہ جعفری کے نزدیک سفر میں نماز کو قصر پڑھنا واجب ہے بشرطیکہ سفر حرام نہ ہو، مسافت 44 کلو میٹر پوری ہو اور ایک جگہ دس دن قیام کرنے کا قصد نہ ہو۔ حدیث میں قصر کے بارے میں آیا ہے: صدقۃ تصدق اللّٰہ بھا فاقبلوا صدقۃ ۔ یہ اللہ کا تحفہ ہے اسے قبول کرو۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: فصار التقصیر فی السفر واجباً کوجوب التمام فی الحضر ۔ (الفقیہ 1: 434 باب الصلوۃ فی السفر) سفر میں قصر پڑھنا اسی طرح واجب ہوا جس طرح غیر سفر میں پوری نماز پڑھنا واجب ہے۔

وَ اِذَا کُنۡتَ فِیۡہِمۡ فَاَقَمۡتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ مَّعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡۤا اَسۡلِحَتَہُمۡ ۟ فَاِذَا سَجَدُوۡا فَلۡیَکُوۡنُوۡا مِنۡ وَّرَآئِکُمۡ ۪ وَ لۡتَاۡتِ طَآئِفَۃٌ اُخۡرٰی لَمۡ یُصَلُّوۡا فَلۡیُصَلُّوۡا مَعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡا حِذۡرَہُمۡ وَ اَسۡلِحَتَہُمۡ ۚ وَدَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ تَغۡفُلُوۡنَ عَنۡ اَسۡلِحَتِکُمۡ وَ اَمۡتِعَتِکُمۡ فَیَمِیۡلُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ مَّیۡلَۃً وَّاحِدَۃً ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ کَانَ بِکُمۡ اَذًی مِّنۡ مَّطَرٍ اَوۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَنۡ تَضَعُوۡۤا اَسۡلِحَتَکُمۡ ۚ وَ خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ اور (اے رسول) جب آپ خود ان کے درمیان موجود ہوں اور آپ خود ان کے لیے نماز قائم کریں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ مسلح ہو کر نماز پڑھے پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو ان کو تمہارے پیچھے ہونا چاہیے اور دوسرا گروہ جس نے نماز نہیں پڑھی ان کی جگہ آئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھے اور اپنے بچاؤ کا سامان اور اسلحہ لیے رہیں، کیونکہ کفار اس تاک میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کر دیں اور اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف میں ہو یا تم بیمار ہو تو اسلحہ اتار رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر اپنے بچاؤ کا سامان لیے رہو،بے شک اللہ نے تو کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔

102۔ نماز خوف کا طریقہ یہ ہے کہ لشکر کا ایک حصہ امام کی اقتداء میں ایک رکعت پڑھے اور دوسری رکعت میں انفرادی طور پر پڑھ کر نماز پوری کرے اور جنگ کا محاذ سنبھالے اور امام دوسری رکعت کو اس قدر طول دے کہ لشکر کا دوسرا حصہ اپنی نماز کی پہلی رکعت امام کی دوسری رکعت کے ساتھ پڑھ سکے۔ امام دوسری رکعت میں سلام پھیر دے تو مقتدی اپنی دوسری رکعت انفرادی طور پر بجا لائے۔ امام شافعی اور امام مالک نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔

فَاِذَا قَضَیۡتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِکُمۡ ۚ فَاِذَا اطۡمَاۡنَنۡتُمۡ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ ۚ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرو، پھر جب اطمینان حاصل ہو جائے تو (معمول کی) نماز قائم کرو، بے شک وقت کی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنا مومنین پر فرض ہے۔

103۔ انسان تین حالتوں سے خالی نہیں رہ سکتا کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے۔ ان حالات میں ذکر خدا کا مطلب یہ ہوا کہ ذکر خدا ہمیشہ اور ہر حالت میں ہونا چاہیے۔ حضرت علی علیہ السلام مومن کی علامات میں فرماتے ہیں: قلبہ بذکر اللّٰہ معمور اس کا دل ذکر خدا سے سرشار رہتا ہے۔ (بحار الانوار 75: 73)

کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا میں دو چیزوں کا ذکر ہے: ایک نماز، دوسرے اس کو وقت پر پڑھنا۔ اگر کسی وجہ سے وقت پر نماز نہیں پڑھی جا سکی تو نماز بطور قضا بھی بہرحال پڑھنی ہے۔

وَ لَا تَہِنُوۡا فِی ابۡتِغَآءِ الۡقَوۡمِ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا تَاۡلَمُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ یَاۡلَمُوۡنَ کَمَا تَاۡلَمُوۡنَ ۚ وَ تَرۡجُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرۡجُوۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۱۰۴﴾٪

۱۰۴۔ اور تم ان کافروں کے تعاقب میں تساہل سے کام نہ لینا اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی ایسی ہی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں تکلیف پہنچتی ہے اور اللہ سے جیسی امید تم رکھتے ہو ویسی امید وہ نہیں رکھتے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ وَ لَا تَکُنۡ لِّلۡخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا﴿۱۰۵﴾ۙ

۱۰۵۔(اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں۔

105۔ یہ آیت اور بعد کی چند آیات اسلام کے عادلانہ مؤقف کے بارے میں ہیں۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ انصار کے ایک فرد نے چوری کا ارتکاب کیا اور تحقیقات کے موقع پر اس مسروقہ مال کو ایک یہودی کے ہاں رکھ دیا اور یہودی پر چوری کا الزام عائد کیا۔ چنانچہ ظاہری علامات کے تحت یہ تاثر قائم ہو رہا تھا کہ چوری یہودی نے کی ہے۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی اور یہودی کو بری الذمہ اور انصار کے فرد کو جو مسلمان تھا ملزم قرار دیا گیا۔

اسلام کے نزدیک عدل و انصاف کرنے کے لیے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فریقین کا تعلق کس مذہب سے ہے۔ عدل و انصاف خالصتاً انسانی مسئلہ ہے۔

ان آیات میں سرزنش کے لہجے میں اگرچہ روئے سخن رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ہے مگر قرآن کا اسلوب کلام یہ ہے کہ خطاب اپنے حبیب سے ہوتا ہے اور دوسروں کو سنانا مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے: سر دلبران در حدیث دیگران۔ اس آیت سے یہ استدلال درست نہیں ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نص صریح نہ ہونے کی صورت میں اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے اور کبھی ان سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے۔ (معارف القرآن 2:542، آمدی: احکام القرآن) کیونکہ یہ بات خود قرآن کی نص صریح وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى (53: 3) کے خلاف ہے۔

وَّ اسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۰۶﴾ۚ

۱۰۶۔اور اللہ سے طلب مغفرت کریں یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

وَ لَا تُجَادِلۡ عَنِ الَّذِیۡنَ یَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ خَوَّانًا اَثِیۡمًا﴿۱۰۷﴾ۚۙ

۱۰۷۔ اور جو لوگ اپنی ذات سے خیانت کرتے ہیں، آپ ان کی طرف سے ان کا دفاع نہ کریں، بے شک اللہ خیانت کار اور گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔

107۔ مجادلۃ: جدال۔ مناظرہ کرنا۔ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔مجادلہ حق پر مبنی ہو سکتا ہے۔

یہاں خطاب آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہے اور ان لوگوں کو تنبیہ کرنا مقصود ہے جو اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیںـ۔ یہ آیت سو فیصد ان پیشہ ور وکلاء کی ہدایت کے لیے ہے جو مجرموں اور خیانت کاروں کی طرف سے چند روپیوں کے عوض مقدمہ لڑتے ہیں۔

یَّسۡتَخۡفُوۡنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسۡتَخۡفُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ وَ ہُوَ مَعَہُمۡ اِذۡ یُبَیِّتُوۡنَ مَا لَا یَرۡضٰی مِنَ الۡقَوۡلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطًا﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ یہ لوگ(اپنی حرکتوں کو) لوگوں سے تو چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتے اور اللہ تو اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب یہ لوگ اللہ کی ناپسندیدہ باتوں میں رات کو تدبیریں سوچتے ہیں اور اللہ ان کی تمام حرکات پر احاطہ رکھتا ہے۔

108۔ استخفاء یعنی پوشیدہ رکھنا اس صورت میں صادق آتا ہے جب کسی دوسرے انسان کے خلاف کوئی سازش کی جا رہی ہو اور اسے لوگوں سے پوشیدہ رکھا جائے۔ کسی چیزکو لوگوں سے تو پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کو پوشیدہ رکھنا کسی کے بس میں نہیں، اگر چہ وہ انسانوں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے رات بھر تدبیریں سوچتے رہیں۔

گناہ کرتے وقت انسان اگر یہ خیال ذہن میں زندہ رکھے کہ میں اس جرم کا ارتکاب اس منصف اور اس قاضی کے سامنے کر رہا ہوں جس کے سامنے کل مجھے پیش ہونا ہے تو انسان کبھی گناہ نہیں کرے گا۔

ہٰۤاَنۡتُمۡ ہٰۤؤُلَآءِ جٰدَلۡتُمۡ عَنۡہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۟ فَمَنۡ یُّجَادِلُ اللّٰہَ عَنۡہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَمۡ مَّنۡ یَّکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ وَکِیۡلًا﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ دیکھو! تم نے دنیاوی زندگی میں تو ان کا دفاع کیا مگر بروز قیامت اللہ سے ان کا دفاع کون کرے گا یا ان کا وکیل کون ہو گا؟

وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو وہ اللہ کو درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا پائے گا۔

110۔ راہ حق سے بھٹکنے والوں کے لیے باب رحمت کھلا ہے۔ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں کے لیے وسیلۂ استغفار ہر وقت موجود ہے۔