اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ وَ لَا تَکُنۡ لِّلۡخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا﴿۱۰۵﴾ۙ

۱۰۵۔(اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں۔

105۔ یہ آیت اور بعد کی چند آیات اسلام کے عادلانہ مؤقف کے بارے میں ہیں۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ انصار کے ایک فرد نے چوری کا ارتکاب کیا اور تحقیقات کے موقع پر اس مسروقہ مال کو ایک یہودی کے ہاں رکھ دیا اور یہودی پر چوری کا الزام عائد کیا۔ چنانچہ ظاہری علامات کے تحت یہ تاثر قائم ہو رہا تھا کہ چوری یہودی نے کی ہے۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی اور یہودی کو بری الذمہ اور انصار کے فرد کو جو مسلمان تھا ملزم قرار دیا گیا۔

اسلام کے نزدیک عدل و انصاف کرنے کے لیے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فریقین کا تعلق کس مذہب سے ہے۔ عدل و انصاف خالصتاً انسانی مسئلہ ہے۔

ان آیات میں سرزنش کے لہجے میں اگرچہ روئے سخن رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے مگر قرآن کا اسلوب کلام یہ ہے کہ خطاب اپنے حبیب سے ہوتا ہے اور دوسروں کو سنانا مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے: سر دلبران در حدیث دیگران۔ اس آیت سے یہ استدلال درست نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو نص صریح نہ ہونے کی صورت میں اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے اور کبھی ان سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے۔ (معارف القرآن 2:542، آمدی: احکام القرآن) کیونکہ یہ بات خود قرآن کی نص صریح وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى (53: 3) کے خلاف ہے۔