آیت 5
 

اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

۵۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

تفسیر آیات

اِیَّاکَ نَعۡبُدُ: کسی ذات کی تعظیم و تکریم اور اس کی پرستش کے چار عوامل ہو سکتے ہیں۔ کمال، احسان، احتیاج اور خوف۔ اللہ تعالیٰ کی پرستش و عبادت میں یہ چاروں عوامل موجود ہیں۔

کمال: اگر کسی کمال کے سامنے ہی سر تعظیم و تسلیم خم ہونا چاہیے تواس عالم ہستی میں فقط اللہ تعالیٰ ہی کمال مطلق ہے، جس میں کسی نقص کا شائبہ تک نہیں۔ تمام کمالات کا منبع اور سر چشمہ اسی کی ذات ہے۔ آسمانوں اور زمین میں بسنے والے اسی کمال مطلق کی عبودیت میں اپنا کمال حاصل کرتے ہیں:

اِنۡ کُلُّ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحۡمٰنِ عَبۡدًا ﴿﴾ (۹ مریم :۹۳)

جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس رحمٰن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ہو گا۔

احسان: اگر کسی محسن کی احسان مندی عبادت و تعظیم کا سبب بنتی ہے تویہاں بھی اللہ کی ذات ہی لائق عبادت ہے، کیونکہ وہی ارحم الراحمین ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر رکھا ہے:

کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ (انعام: ۵۴)

تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔

احتیاج: عبادت کا سبب اگر احتیاج ہے تو یہاں بھی معبود حقیقی اللہ ہی ہے،کیونکہ وہ ہر لحاظ سے بے نیاز ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ وہ علت العلل ہے اور باقی سب موجودات معلول ہیں اور ظاہر ہے کہ علت کے مقابلے میں معلول مجسم احتیاج ہوتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَ اللّٰہُ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ﴿﴾ (۳۵ فاطر : ۱۵)

اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

خوف: اگر وجہ تعظیم و عبادت خوف ہے توخداوند عالم کی طرف سے محاسبے اور مؤاخذے کا خوف انسان کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک دن اسے اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا:

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ اَسَآءَ فَعَلَیۡہَا ۫ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ تُرۡجَعُوۡنَ﴿﴾ (۴۵ جاثیہ :۱۵)

جو نیکی کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے، پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

رحمن و رحیم، رب العالمین اور روز جزاء کے مالک پر ایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی ہو،کیونکہ سابقہ آیات میں عبادت کے تمام عوامل بیان ہو چکے ہیں۔

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ سے کمال خداوندی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یعنی خداوند عالم کمال کی اس منزل پر ہے کہ تمام حمدو ثنا صرف اسی کے شایان شان ہے۔

رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ سے عبادت کا دوسرا عامل ’’احتیاج‘‘ سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی خدا ساری کائنات کا مالک، مربی اور پالنہار ہے۔ باقی سب اس کی تربیت کے محتاج ہیں۔

الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ﴿﴾ سے تیسرا عامل ’’ احسان‘‘ آشکار ہوتا ہے۔ یعنی خدا کا احسان عام ہے اور ہر چیز کو شامل ہے۔

مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿﴾ کے ضمن میں چوتھا عامل ’’خوف‘‘ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی قیامت کا یقین اللہ کے عدل سے خوف کا باعث بنتا ہے، ورنہ ذاتِ الٰہی سے خوف کا کوئی معنی نہیں۔ وہ تو رحیم و غفور ہے۔ بنابریں ہر اعتبار سے عبادت صرف اسی کی ہو سکتی ہے:

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ۔۔۔ (۱۷ اسراء : ۲۳)

اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔

عبادت کی تعریف: عبادت کی تعریف اور مفہوم کے بارے میں کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے اور عبادت کی یہ تعریف کرتے ہیں۔

کسی کے تقرب اور اس کی شفاعت کے حصول کے لیے قلبی تعلق قائم کرنا۔ (محمد بن عبد الوھاب۔ کشف الشبھات)

اس تعریف میں قلبی تعلق اور تعظیم کو عبادت قرار دیا گیا ہے اور اس غلط تعریف کی بنیاد پر یہ لوگ اکثر مسلمانوں کو مشرک قرار دیتے ہیں، جب کہ قرآن میں غیر خدا سے قلبی تعلق اور تعظیم کرنے کی ترغیب موجود ہے :

وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ (۲۲ حج : ۳۲)

جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔

والدین کے بارے میں فرمایا:

وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ ۔۔۔ (۱۷ بنی اسرائیل: ۲۴)

اور مہر و محبت کے ساتھ ان (والدین) کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو۔

عبادت کی صحیح تعریف قرآنی شواہد کی روشنی میں اس طرح ہے:

کسی کو خالق یا رَب تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا۔

خود لفظ ’’عبادت‘‘ سے اس کی تعریف نکل آتی ہے۔ چنانچہ عبد مملوک کو کہتے ہیں۔ العین میں آیا ہے: العبد المملوک ۔ اور مملوک اسے کہتے ہیں جس کا کوئی مالک ہو۔ چنانچہ رب مالک کو کہتے ہیں۔ العین میں آیا ہے:

و من ملک شیئا فھو ربّہ، لا یقال بغیر الاضافۃ الا للّٰہ عز و جل ۔

جو کوئی کسی چیز کا مالک بنتا ہے وہ اس کا رَب کہلائے گا اور بغیر اضافہ کے مطلق رب صرف اللہ تعالیٰ کو کہا جاتا ہے۔

لہٰذا عبادت رب کی ہوتی ہے۔ اگر کوئی رب نہیں ہے توکوئی اس کا عبدبھی نہیں ہو گا اور جب عبد نہیں ہے تو عبادت بھی نہیں ہو گی۔ اس مطلب کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے :

اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ﴿﴾ (۳ آل عمران: ۵۱)

بیشک اللہ میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے لہٰذا تم اس کی بندگی کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔

مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مریم آیت ۶۵، سورۂ حج آیت ۷۷، سورۂ انبیاء آیت ۹۲۔ ان آیات میں فرمایا ہے کہ چونکہ اللہ ہی تمہارا رَب ہے لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو۔ ان سب آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت رَب کی ہوتی ہے۔

چنانچہ بت پرست اپنے بتوں کو رب مانتے تھے پھر ان کی پرستش کرتے تھے، اس لیے مشرک قرار پائے۔ اسی طرح کسی کو اپنا خالق تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا بھی عبادت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

کُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ فَاعۡبُدُوۡہُ ۔۔۔ (۶ انعام: ۱۰۲)

یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر چیز کا خالق ہے، لہٰذا اس کی عبادت کرو۔

وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ چونکہ کائنات کا مالک وہی ہے اور ہر چیز پر اسی کی حاکمیت ہے:

لَہٗ مَقَالِیۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۔۔۔ (۳۹ زمر : ۶۳)

آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت ہیں۔

لہٰذا جب مومن طاقت کے اصل سرچشمے سے وابستہ ہوتا ہے تو تمام دیگر طاقتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور کسی دوسری طاقت سے مدد لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔

غیر اللہ سے استمداد کا مطلب یہ ہوگا کہ سلسلۂ استمداد اللہ تعالیٰ پرمنتہی نہ ہو اور اس غیر اللہ کو اذن خدا بھی حاصل نہ ہو۔ لیکن اگر یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ پر منتہی ہوتا ہو تو یہ اللہ سے براہ راست استمداد کے منافی نہیں۔ کیونکہ مخلوقات جس طرح اپنے وجود میں خالق حقیقی سے مستغنی اور بے نیاز نہیں، اسی طرح اپنے افعال میں بھی مستقل نہیں ہیں۔ ان کا ہر عمل فیض الٰہی کا کرشمہ ہوتا ہے۔ بنا بریں اگر خدا نے اپنے خاص بندوں کو وسیلہ بننے کی اجازت دے رکھی ہے تو ان سے استمداد درحقیقت خدا سے استمداد ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا﴿﴾ (۴ نساء: ۶۴)

اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔

یعنی اللہ سے طلب مغفرت کے لیے رسول (ص) کے دربار میں حاضر ہو کر انہیں وسیلہ بنانا جَآءُوۡکَ اور وسیلہ بن کر رسول کا(ص) ان کے لیے استغفار کرنا ہمارے مدعا کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔

نیز فرمایا :

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ رَضُوۡا مَاۤ اٰتٰىہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۙ وَ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ سَیُؤۡتِیۡنَا اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ رَسُوۡلُہٗۤ ۙ ۔۔۔ (۹ توبہ : ۵۹)

اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیاہے وہ اس پر راضی ہو جاتے اور کہتے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی۔

نیز فرمایا:

وَ مَا نَقَمُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ اَغۡنٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۔۔۔ (۹ توبہ :۷۴)

اور انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان (مسلمانوں) کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے۔

’’بہت کچھ عنایت کرنے‘‘ اور ’’دولت سے مالا مال کرنے‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے رسول(ص) کا اس طرح ذکر کرناکہ ’’اللہ اور رسول(ص) نے بہت کچھ دیا ہے‘‘ اور ’’اللہ اور رسول(ص) نے دولت سے مالا مال کر دیا‘‘، شرک نہیں ہے، کیونکہ یہ عطا و بخشش اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر نہیں ہے کہ شرک کے زمرے میں چلی جائے بلکہ یہ تو مِنۡ فَضۡلِہٖ کے ذیل میں آتی ہے۔

لہٰذا قرآنی تصریحات کے مطابق جب یہ کہنا درست ثابت ہوگیا کہ ’’اللہ اور اس کے رسول (ص) نے دولت سے مالا مال کر دیا‘‘ تو یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ’’اے رسول خدا (ص)! ہمیں دولت سے مالا مال فرمادیں۔‘‘

لہٰذا جس طرح اللہ تعالیٰ سے حصول فیض میں وسائل اور وسائط کار فرما ہوتے ہیں، اسی طرح اللہ سے طلب فیض کے لیے بھی اس کے مجاز وسائل اور واسطوں کا ہوناثابت ہے۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مخلوق سے مدد طلب کرنا شرعاًجائز ہے جیسا کہ قرآن نے فرمایا ہے: فَاَعِیۡنُوۡنِیۡ بِقُوَّۃٍ ۔۔۔۔ (۱۸ کہف : ۹۵ ) تم طاقت کے ساتھ میری مدد کرو، نیز فرمایا: وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰ ۔۔۔ (۵ مائدہ : ۲) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو، تو صرف اللہ سے مدد مانگنے کا مطلب کیا ہوا؟

اس کا ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد سے مراد توفیق ہے اور توفیق کسی فعل کے انجام دینے کے لیے تمام اسباب کی فراہمی کو کہتے ہیں اور صرف اللہ تمام اسباب فراہم کر سکتا ہے۔ اس لیے ہر مدد کو توفیق نہیں کہتے، بلکہ ہر توفیق مدد ہے۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد سے مراد بدنی طاقت ہے جو صرف اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جو مدد غیر خدا سے لی جاتی ہے وہ درحقیقت اللہ سے ہے، چونکہ وہ اللہ کی مخلوق ہے اور اس نے جو کچھ مدد دی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ چوتھا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد دینے والا خود اپنی ذات، اپنے وجود، اپنے افعال میں اللہ کا محتاج ہے، لَا حَول وَ لَا قُوۃ اِلاَّ بِاللّٰہ کا یہی مفہوم ہے، لہٰذا اس سے مدد لینا خود اللہ سے مدد ہے۔

اہم نکات

۱۔ جس کی بندگی کی جاتی ہے، مدد بھی اسی سے طلب کی جاتی ہے۔ نَعۡبُدُ۔ نَسۡتَعِیۡنُ ۔

۲۔ استعانت الٰہی کے بغیر عبادت بھی ممکن نہیں ہے۔

۳۔ عبادت اور استعانت کا حقیقی محور صرف ایک ہی کامل ذات ہے۔

۴۔ حرف خطاب ’’ک‘‘ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت و استعانت کے وقت بندہ خود کو بارگا ہ خدا میں حا ضر دیکھے۔

۵۔ نَعۡبُدُ سے اجتماعی عبادت کا تصور ملتا ہے۔

۶۔ نَسۡتَعِیۡنُ سے پہلے نَعۡبُدُ کے ذکر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بندے کو استعانت سے پہلے عبودیت کی منزل پر فائزہونا چاہیے۔

۶۔ استعا نت دلیل احتیاج ہے۔


آیت 5