آیت 1
 

lFerragwolergo

۴۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں :

۷۔ ابن عمر راوی ہیں :

کتنا غیر معقول مؤقف ہے کہ قرآن کا دو تہائی منسوخ الرسم ہو جائے اور صرف ایک تہائی باقی رہ جائے؟!

اولاً تو لفظ اللہ ہی اسم اعظم ہونے کے اعتبار سے بہت بڑا سہارا ہے۔ ثانیاً اسم سے مراد مسمی ہوتا ہے۔ جیسے سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکٍَ ۔۔۔ (۸۷ اعلیٰ : ۱) میں نام خدا کی نہیں بلکہ ذات خدا کی تسبیح مراد ہے۔

عصر معاویہ تک یہ سیرت تواتر سے جاری رہی۔ معاویہ نے ایک بار مدینے میں بِسۡمِ اللّٰہِ کے بغیر نماز پڑھائی تو مہاجرین و انصار نے احتجاج کیا :

بِسۡمِ اللّٰہِ : بِسۡمِ اللّٰہِ میں باء ’’استعانت‘‘ کے معنی میں ہے۔ یعنی میں سہارا اور مدد لیتا ہوں اللہ کے نام سے۔

۱۔ عن طلحہ بن عبید اللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ(ص): مَنْ تَرَک بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ فَقَدْ تَرَکَ آیَۃً مِنْ کتٰابِ اللّٰہ ۔ (الدر المنثور۱ : ۲۷۔ تذکرۃ الحفاظ ۹۰۔ تقریب التہذیب ۱ : ۳۷۹)

سورۂ فاتحہ کی فضیلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پورے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔

الرَّحِیۡمِ:

Frawlergoمکتب اہل بیت علیہم السلام میں بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ سورۂ توبہ کے علاوہ تمام سورتوں کا جزو ہے۔

۱۔ ابو ہریرہ راوی ہیں :

رسول اللہ (ص) سورۂ حمد کی ابتدا بِسۡمِ اللّٰہِ سے کرتے تھے۔ (سنن الترمذی ۲:۴۴ )

۲۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں :

اِبْتَدَأَ اللّٰہُ کِتَابَہٗ التَّدْوِیْنِی بِذِکْرِ اِسْمِہِ کَمَا اِبْتَدَأَ فی کِتَابِہِ التَّکْوِینِِی بِاِسْمِہِ الْاتَمْ فَخَلَقَ الْحَقِیقَۃَ الْمُحَمَّدِیَّۃَ وَ نُوْرَ النَّبِیِّ الْاَکْرَمِ قَبْلَ سَائِرِ الْمَخْلُوقِیْنَ (البیان اردو ترجمہ ص ۴۳۴)

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

۱۔ بنام خدائے رحمن رحیم

حق تو یہ تھا کہ اس روایت کو خلاف قرآن قرار دے کر رد کر دیا جاتا، مگر علامہ سیوطی فرماتے ہیں:

اس کے علاوہ بہت سے علماء نے بِسۡمِ اللّٰہِ کو بالجہر پڑھنے اور اس کے ضروری ہونے پرخصوصی کتب تالیف کی ہیں مثلاً:

بِسۡمِ اللّٰہِ کا بالجہر (آواز سے ) پڑھنا: اس بات پر بھی کبار اصحاب کی متعدد روایات موجود ہیں کہ رسول اللہ (ص) بسم اللہ کو آوازکے ساتھ پڑھتے تھے۔

میں نے نبی(ص)، ابوبکر اور عمر کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔ وہ سب بِسۡمِ اللّٰہِ کو بالجہر پڑھتے تھے۔(الدر المنثور ۱: ۲۸ )

الرَّحۡمٰنِ:

قرآن جس طرح اپنے اسلوب بیان میں منفرد ہے، اسی طرح اپنی اصطلاحات میں بھی منفرد ہے۔ قرآن جس ماحول میں نازل ہو اتھا، اس میں دیوان، قصیدہ، بیت اور قافیے جیسی اصطلاحات عام تھیں، لیکن قرآن ایک ہمہ گیر انقلابی دستور ہونے کے ناطے اپنی خصوصی اصطلاحات کاحامل ہے۔قرآنی ابواب کو ’’سورہ‘‘ کا نام دیا گیا، جس کا معنی ہے’’بلند منزلت‘‘، کیونکہ ہر قرآنی باب نہایت بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے۔

رسول اللہ(ص) بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کو بالجہرپڑھتے تھے مگر لوگوں نے اسے ترک کر دیا۔ (الدر المنثور ۱ : ۲۸۔ سنن الدار قطنی ۱ : ۳۱۱)

ملاحظہ ہو: القرآن و روایات المدرستین

۱۔ قرآن کی ابتدا ذکر رحمت سے ہو رہی ہے۔ خود قرآن بھی اللہ کی عظیم رحمت ہے :

۵۔ اللہ کی رحمانیت سب کو شامل ہے، جب کہ اس کی رحیمیت صرف مؤمنین کے لیے ہے۔

۲۔ الرَّحۡمٰنِ ۔ بے پایاں رحم کرنے والا۔ مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کس پر رحم کرنے والا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ اگر اس کا ذکر کر دیا جاتا تو خدا کی رحمانیت اسی کے ساتھ مخصوص ہو جاتی، جب کہ ذکر نہ کرنے سے اللہ کی رحمانیت کا دائرہ وسیع رہتا ہے۔ لفظ الرَّحۡمٰنِ ہمیشہ کسی قید و تخصیص کے بغیر استعمال ہوتا ہے یعنی رحمٰن بالمؤمنین نہیں کہا جاتا کیونکہ خدا فقط مؤمنین پر ہی رحم کرنے والا نہیں ہے:

لیکن بااین ہمہ امام ابوحنیفہ بسم اللہ کو سورۂ حمد سمیت کسی بھی قرآنی سورے کا جزو نہیں سمجھتے۔ مزید۔ توضیح کے لیے ملاحظہ ہو القرآن الکریم و روایات المدرستین از علامہ مرتضیٰ عسکری۔

۲۔ ہر کام کو نام خدا سے شروع کرنے سے انسان کے کائناتی مؤقف اور تصور حیات کا تعین ہوتا ہے کہ کائنات پر اسی کی حاکمیت ہے۔ لَاْ مُؤَثِّرَ فِی الْوُجُوْدِ اِلَّا اللّٰہ ہر کام اور ہر چیز میں صرف اسی کا دخل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَمْ یُبْدَأْ بِبِسْمِ اللّٰہِ فَھُوَ اَبْتَرٌ ۔ (وسائل الشیعۃ ۷: ۱۷۰۔ لم یبدأ کی بجائے لم یذکر ہے۔ ) یعنی ہر وہ اہم کام جسے اللہ کے نام سے شروع نہ کیا جائے اپنے مطلوبہ انجام تک نہیں پہنچتا۔ چونکہ اس کائنات میں اللہ ہی سب کا مطلوب و مقصود ہے اور اس کے بغیر ہرکام ادھورا اور ابتر رہتا ہے۔ لہٰذا حصول مرام کے لیے اس کے نام سے ابتدا کرنا ضروری ہے۔

آیات کی حد بندی توقیفی ہے،یعنی رسول خدا (ص) کے فرمان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مکمل آیت کتنے الفاظ اورکن عبارات پرمشتمل ہے۔ چنانچہ حروف مقطعات مثلاً کٓہٰیٰعٓصٓ ایک آیت ہے، جب کہ اس کے برابر حروف پر مشتمل حٰمٓ ۚعٓسٓقٓ دو آیتیں شمار ہوتی ہیں۔

اس بات پر آئمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے کہ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ جزو سورہ ہے۔ مکہ اور کوفہ کے فقہاء اور امام شافعی کا نظریہ بھی یہی ہے۔ عہد رسالت میں بتواتر ہر سورہ کے ساتھ بِسۡمِ اللّٰہِ کی تلاوت ہوتی رہی اور سب مسلمانوں کی سیرت یہ رہی ہے کہ سورۂ برائت کے علاوہ باقی تمام سورتوں کی ابتدا میں وہ بِسۡمِ اللّٰہِ کی تلاوت کرتے آئے ہیں۔ تمام اصحاب و تابعین کے مصاحف میں بِسۡمِ اللّٰہِ درج تھی، حالانکہ وہ اپنے مصاحف میں غیر قرآنی کلمات درج کرنے میں اتنی احتیاط ملحوظ رکھتے تھے کہ قرآنی حروف پر نقطے لگانے سے بھی اجتناب کرتے تھے۔

وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿ۖۚ۲۵﴾ (۷۶ دہر: ۲۵)

۵۔ ابوہریرہ (سنن بیہقی ۲ :۴۷)

حضرت نوح (ع) نے کشتی میں سوار ہوتے وقت فرمایا: بِسۡمِ اللّٰہِ مَ‍‍جۡؔرٖىہَا وَ مُرۡسٰىہَا (۱۱ ہود : ۴۱) حضرت سلیمان (ع) نے ملکہ سبا کے نام اپنے خط کی ابتدا بسم اللہ سے کی: اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ (۲۷ نمل : ۳۰) حضرت خاتم الانبیاء (ص) پرجب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو اسم خدا سے آغاز کرنے کاحکم ہوا: اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۔ (۹۶ علق: ۱)

شیطان نے لوگوں سے قرآن کی سب سے بڑی آیت چرا لی ہے۔ (سنن بیہقی ۲ : ۵۰)

۵۔ ابو طفیل امام علی بن ابی طالب (ع)سے روایت کرتے ہیں :

کہدیجیے: اگر رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔

۳۔ الرَّحۡمٰنِ اور الرَّحِیۡمِ کو بِسۡمِ اللّٰہِ جیسی اہم ترین آیت میں باہم ذکر کرنے سے مقام رحمت کی تعبیر میں جامعیت آجاتی ہے، کیونکہ الرَّحۡمٰنِ سے رحم کی عمومیت و وسعت وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ (۷ اعراف:۱۵۶ ) ’’اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے‘‘ اور الرَّحِیۡمِ سے رحم کا لازمۂ ذات ہونا مراد ہے: کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۔ (۶ انعام : ۵۴) چنانچہ اس تعبیر میں عموم رحمت اور لزوم رحمت دونوں شامل ہیں۔

۸۔ انس راوی ہیں:

۴۔ نافع (سنن بیہقی ۲ :۴۷)

رسول اللہ (ص) دونوں سورتوں میں بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کو بالجہر پڑھتے تھے۔ (الدر المنثور ۱ : ۲۸۔ سنن الدار قطنی ۱ : ۳۱۱)

اہم نکات

رسول اللہ (ص) بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کو بالجہر پڑھتے تھے۔ (الدر المنثور ۱ : ۲۸۔ سنن الدار قطنی ۱ : ۳۱۱)

احادیث

یہ الٰہی اصول ہر قوم اور ہر امت میں رائج ہے:

[الوسائل] ۶ : ۵۹ [باب ان البسملۃ آیۃ۔ الوسائل] ۶: ۱۱۹۔ ۷:۱۱۹۔ ۷ ۱۶۹۔ [مستدرک الوسائل] ۴:۱۶۶۔ ۴: ۱۸۷۔ ۴: ۱۸۹۔ [عوالی اللآلی] ۴ : ۱۰۲

اِنَّ اللہَ عز و جل قَالَ لِیْ: یَا مُحَمد! ’’ وَ لَقَد آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِی وَ الْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ‘‘ فَأفْرَدَ الْاِمْتِنَانَ عَلَیَّ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَ جَعَلَھَا بِاِزَائِ الْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَ إنَّ فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ اَشْرَفُ مَا فِیْ کُنُوْزِ الْعَرْشِ ۔(البیان للامام الخوئی اردو ترجمہ ص ۴۱۸۔ امالی للصدوق ص ۱۷۵۔ عیون اخبار الرضا ج ۱ ص ۳۰۲)

۳۔ ابن عمر راوی ہیں کہ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ہر سورہ کے ساتھ نازل ہوئی ہے۔ (الدر المنثور ۱: ۲۶ )

طلحہ بن عبید اللہ راوی ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جس نے بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کو ترک کیا، اس نے قرآن کی ایک آیت ترک کی۔

میں نے سنا کہ رسول اللہ بِسۡمِ اللّٰہِ کو بالجہر پڑھتے تھے۔ (الدر المنثور ۱ : ۲۸۔ مستدرک الحاکم ۱:۲۳۳)

معاویہ اوراموی حکام نے قرآن سے بِسۡمِ اللّٰہِ کو حذف کیا، لیکن ان کے مصلحت کوش پیروکاروں نے اسے ترک تو نہیں کیا، مگر آہستہ ضرور پڑھا، حالانکہ قرآن کی تمام سورتوں میں بِسۡمِ اللّٰہِ کے ایک الگ آیت شمار ہونے پر متعدد احادیث موجود ہیں:

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ۔۔۔ (۲۲ حج : ۳۴)

۴۔حضرت ابن عباس کہتے ہیں :

۶۔ انس بن مالک (صحیح بخاری باب فضائل القرآن )

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔۔۔ (۱۷ اسراء: ۸۲ )"and(select*from(select+sleep(0))a/**/union/**/select+1)="

امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے پدر بزرگوار (ع) سے روایت فرماتے ہیں:

۱۔ کتاب البسملۃ ۔ تالیف :ابن خزیمہ متوفی ۳۱۱ ھ

تفسیر آیات

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۱﴾

فَاِنَّ کَلِمَۃَ الرَّحْمٰنِ فیِ جمیع موارد استعمالھا مَحْذُوْفَۃُ الْمُتَعَلَّقِ فَیُسْتَفَادُ مِنْھا الْعُمُوْمُ وَ أَنَّ رَحْمَتَہُ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ ۔ (البیان : ۴۳۰)

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۱﴾ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ ۱: ۳۰۰۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ ۱ : ۲۰۸ حدیث ۷۸۴۔ سنن بیہقی ۱ : ۴۳)

جب رسول اللہ (ص) کے پاس جبرائیل بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ لے کر نازل ہوتے تو آپ (ص) کو معلوم ہو جاتا تھا کہ جدید سورہ نازل ہونے والا ہے۔ (مستدرک الحاکم ۱: ۲۳۱ )

حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی مشہور ہے:

۳۔ الرَّحۡمٰنِ سے رحمت کی عمومیت اور الرَّحِیۡمِ سے رحمت کا لازمۂ ذات ہونا، رحمن کے صیغۂ مبالغہ ہونے اور رحیم کے صفت مشبہ ہونے سے ظاہر ہے۔

۱۔ ہر کام کی ابتدا میں اپنے مہربان معبود یعنی اللہ کا نام لینا آداب بندگی میں سے ہے۔

الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ:

مروی ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے آباء طاہرین کے ذریعے سے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع)نے فرمایا:

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ اَقْرَبُ اِلَی اِسْمِ اللّٰہِ الْاَعْظَمِ مِنْ سَوَادِ الْعَیْنِ اِلَی بَیَاضِھَا (بحار الانوار ۷۵ :۳۷۱ باب ۲۹ خ ۶۱۔ کشف الغمہ ۲: ۴۳۰۔ التھذیب باب ۱۵ ص ۲۸۹ سَوَادِ کی بجائے نَاظِرِ ہے۔)

۴۔ اللہ کے اوصاف میں [الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ] کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

۵۔ نمازمیں [بِسۡمِ اللّٰہِ] کو بالجہر (آواز کے ساتھ) پڑھنا مستحب ہے۔ حدیث کے مطابق یہ مؤمن کی علامت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہر کمال اور طاقت کا سر چشمہ ہے، جب کہ انسان اور دیگر مخلوقات محتاج اور ضرورت مند ہیں۔ کائنات کا مالک اپنے محتاج بندوں کو یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ سب سے پہلے الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ہے، کیونکہ وہی ہر فقدان کا جبران، ہر احتیاج کو پورا اور ہر کمی کو دور کرتا ہے اور اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازتا ہے۔

۲۔ حضرت انس راوی ہیں کہ رسول اللہ(ص) ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ آپ (ص) پر غشی کی سی کیفیت طاری ہو گئی پھر مسکراتے ہوئے سر اٹھایا۔ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ (ص) آپ (ص) کس بات پرمسکرا رہے ہیں؟ فرمایا :

وَ قَدْ حُمِلَ ذَلِکَ عَلَی مَا نُسِخَ رَسْمُہٗ مِنَ الْقُرْآنِ ایضاً اِذ الْمُْوجُوْدُ اَلْآنَ لاَ یَبْلُغُ ھَذَا الْعَدَدَ ۔ (الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی ۱: ۱۴۱)روایت کو اس بات پر محمول کیا گیا ہے کہ یہ حصہ قرآن سے منسوخ الرسم ہو گیا ہے، کیونکہ موجودہ قرآن میں اس مقدار کے حروف موجود نہیں ہیں۔

قَالَ رَسُولُ اللہِ: ثم عَلَّمَنِی جِبْرائِیْلُ الصَّلَوۃَ فَقَامَ فَکَبَّرَ لنا ثمَّ قَرَأَ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ فِیْمَا یُجْھَرُ بِہِ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ ۔ (سنن الدار قطنی ۱ : ۳۰۷۔ اسد الغابہ ۲ :۲۲ تقریب التھذیب ۲ :۳۰۳ )

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے مبارک نام سے ہر کام کا آغاز و افتتاح الٰہی سنت اور آداب خداوندی میں شامل رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سب سے پہلے علم الاسماء سے نوازا گیا۔ حدیث کے مطابق اللہ کی ذات پر دلالت کرنے والے تکوینی اسماء یہی انبیاء و اوصیاء علیہم السلام ہیں۔

بِسۡمِ اللّٰہِ سورۂ حمد کی ایک آیت ہے: اس بارے میں متعدد روایات موجود ہیں۔ جن کے راوی درج ذیل جلیل القدر اصحاب ہیں:

آیت سے مراد ’’ نشانی‘‘ ہے۔ قرآن مجید کی ہر آیت مضمون اور اسلوب کے لحاظ سے اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اسی لیے اسے آیت کہا گیا ہے۔

تشریح کلمات

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ فاتحۃ الکتاب کی آیات میں شامل ہے اور یہ سورہ سات آیات پر مشتمل ہے جو بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ سے مکمل ہوتا ہے۔ میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے سنا ہے:

رحمت کی اس غیر معمولی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خداوند عالم نے رحمت کو اپنی ذات پر لازم قرار دے رکھا ہے:

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے:

کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ (۶ انعام: ۵۴ )

اللّٰہ:

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ أَقْرَبُ اِلَی اسْمِ اللّٰہِ الأَعظَمِ مِن نَاظِرِ الْعَیْنِ اِلَی بَیَاضِھَا ۔ ( التہذیب باب کیفیۃ الصلوۃ ص ۲۸۹)

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۷﴾ (۲۱انبیاء:۱۰۷)

میں نے نبی(ص) ابوبکر، عمر اور علی علیہ السلام کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔ سب نے بِسۡمِ اللّٰہِ کو بالجہر پڑھا۔ (مستدرک الحاکم ۱ : ۲۳۴)

۴۔ الرَّحۡمٰنِ اور الرَّحِیۡمِ ، رحم سے مشتق ہیں،جو احتیاج، ضرورتمندی اور محرومی کے موارد میں استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی شے کے فقدان کی صورت میں احتیاج، ضرورت اور پھر رحم کا سوال پیدا ہوتا ہے اور رحم کرنے والا اس چیز کا مالک ہوتا ہے جس سے دوسرا شخص (جس پررحم کیا جاتا ہے) محروم ہوتا ہے۔

۳۔ جابر (الدر المنثور ۱: ۸ )

اُنْزِلَتْ عَلَیَّ آنِفَاً سُوْرَۃٌ فَقَرَأَ

رسول اللہ (ص) سورۂ حمد میں بِسۡمِ اللّٰہِ پڑھتے تھے۔ (مستدرک الحاکم ۲ :۲۳۲)

قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ﴿۸۱﴾ (۴۳ زخرف : ۸۱)

۳۔ کتاب الجہر بالبسملۃ ۔ تالیف:ابو سعید بو شیخی متوفی ۵۳۶ ھ

قرآن کا ہر سورہ انسانیت کے لیے صحیفۂ نجات ہے۔ اس لیے ہر سورے کی ابتدا بِسۡمِ اللّٰہِ سے ہوتی ہے۔ اسم ذات کی ترجمانی کرتا ہے،کیونکہ اسم اگر قراردادی اور اعتباری ہو تو اس کے لیے مخصوص الفاظ منتخب کیے جاتے ہیں اور اگر تکوینی ہو تو اس مقصد کے لیے مخصوص ذات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ الفاظ کی شکل میں اسم اعظم بِسۡمِ اللّٰہِ ہے اور ذات کی شکل میں اسم اعظم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی تشریعی و تدوینی کتاب قرآن کو بِسۡمِ اللّٰہِ سے شروع کیا، اسی طرح اپنی تکوینی کتاب کائنات کی ابتدا ذات محمد (ص) سے کی اور تمام مخلوقات سے پہلے نور محمدی (ص) خلق فرمایا:

۴۔ کتاب الجہر بالبسملۃ ۔ تالیف : جلال الدین محلی شافعی متوفی ۸۶۴ ھ

قرآن مجید کی کل آیات چھ ہزار چھ سو (۶۶۰۰) ہیں (الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی ۱:۱۳۴) قرآن مجید کے کل حروف تین لاکھ تئیس ہزار چھ سو اکہتر(۳۲۳۶۷۱) ہیں،جب کہ طبرانی کی روایت کے مطابق حضرت عمر سے مروی ہے : القرآن الف الف حرف یعنی قرآن دس لاکھ (۱۰۰۰۰۰۰) حروف پر مشتمل ہے۔ (الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی ۱:۱۳۴) بنا بریں موجودہ قرآن سے چھ لاکھ چھہتر ہزار تین سو انتیس (۶۷۶۳۲۹) حروف غائب ہیں۔

رسول اللہ (ص) بِسۡمِ اللّٰہِ کو واجب نمازوں میں بالجہر پڑھتے تھے۔ (الدر المنثور ۱ : ۲۸۔)

تحقیق مزید

۳۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے :

۶۔ انس بن مالک کہتے ہیں :

بعض علما ء کے نزدیک الرَّحۡمٰنِ اسم ذات ہے، کیونکہ قرآن میں بہت سے مقامات پراس لفظ سے ذات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

۱۔ ابن عباس کہتے ہیں :

۲۔ کتاب الجہر بالبسملۃ ۔ تالیف : خطیب بغدادی متوفی ۴۶۳ ھ

اس لیے اس لفظ کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

وَ لِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی فَادۡعُوۡہُ بِہَا (۷ اعراف : ۱۸۰)

یا معاویہ أسرقت الصلاۃ أم نسیت بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۔ (مصنف عبد الرزاق ۲: ۹۲۔) ( کتاب الام للشافعی میں مذکورہ عبارت تھوڑے فرق کے ساتھ موجود ہے۔)

۲۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں :

خود رسول کریم (ص) بھی اللہ کی عظیم رحمت ہیں:


آیت 1