آیت 59
 

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ رَضُوۡا مَاۤ اٰتٰىہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۙ وَ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ سَیُؤۡتِیۡنَا اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ رَسُوۡلُہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوۡنَ﴿٪۵۹﴾

۵۹۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر راضی ہو جاتے اور کہتے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی، ہم اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں۔

تفسیر آیات

مدینے کے محدود معاشرے میں عربوں نے اتنی دولت ایک جگہ نہیں دیکھی تھی جو زکوۃٰ کے فنڈ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خزانے میں جمع ہوتی تھی۔ منافق اس دولت کو مسلمانوں میں تقسیم ہوتے دیکھ نہیں سکتے تھے اور جل کر حضورؐ کو مطعون کرنے کی کوشش کرتے اور جو کچھ ان کے حصہ میں آتا اس پر قانع بھی نہیں رہتے تھے۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ زکوٰۃ سے منافقین کو بھی حصہ ملا کرتا تھا مگر وہ صرف مادی نگاہ سے اس حصے کو دیکھتے تھے تو اس پر راضی نہیں ہوتے تھے، نہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے کسی فضل و کرم پر بھروسہ رکھتے تھے۔

اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ عنایت کرنے اور دینے میں اللہ کے بعد رسولؐ کا بھی ذکر آیا ہے۔

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ رَضُوۡا: ایمان کے آثار میں سے ایک اللہ اور رسولؐ کے فیصلوں پر راضی ہونا ہے۔

وَ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ: یہ موقف اختیار کرنا ہے کہ ہر مشکل کے لیے اللہ کافی ہے۔

سَیُؤۡتِیۡنَا اللّٰہُ: تیسرا یہ اللہ اور رسول کی عنایتوں کی امید رکھنا ہے۔

ایک بار امام ابو حنیفہ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ کھانا کھایا۔ جب کھانا کھا چکے تو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

الحمد للّٰہ رب العالمین۔ اللّٰہم ہذا منک و من رسولک ۔ حمد و ثنا کامل خدائے رب العالمین کے لیے۔ اے اللہ! یہ روزی تیری اور تیرے رسولؐ کی طرف سے ہے۔ تو ابو حنفیہ نے کہا ہے: ابا عبد اللہ آپ نے شرک کا ارتکاب کیا تو آپؑ نے فرمایا : افسوس کا مقام ہے، اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: وَ مَا نَقَمُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ اَغۡنٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۔ (۹توبۃ ۷۴) ان کو اس بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا: وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ رَضُوۡا مَاۤ اٰتٰىہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۙ وَ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ سَیُؤۡتِیۡنَا اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ رَسُوۡلُہٗۤ ۔۔۔۔۔۔۔ ابو حنیفہ نے تعجب کے لہجے میں کہا: گویا کہ یہ آیت قرآن میں میں نے پڑھی ہی نہیں۔ (بحار الانوار ۱۰ : ۲۱۶)

اہم نکات

۱۔ اللہ کا فضل جب رسولؐ کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے تو اس کا ذکر کرنا، نہ صرف یہ کہ شرک نہیں بلکہ اس کا ذکر نہ کرنا کفران نعمت ہے۔

۲۔ مؤمن فضل خدا اور رسولؐ پر بھروسہ رکھتا ہے۔

۳۔ کسی نعمت کے موقع پر یہ کہنا درست ہے: بفضل خدا و رسولؐ۔

۴۔ اللہ اور رسولؐ کے فیصلے پر راضی ہونا آداب بندگی کی سب سے پہلی اہم بات ہے: وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ رَضُوۡا ۔۔۔۔


آیت 59