آیت 152
 

وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۚ وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ الۡمِیۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ ۚ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ وَ اِذَا قُلۡتُمۡ فَاعۡدِلُوۡا وَ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی ۚ وَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ اَوۡفُوۡا ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۱۵۲﴾ۙ

۱۵۲۔اور یتیم کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر ایسے طریقے سے جو (یتیم کے لیے) بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کرو، ہم کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتے اور جب بات کرو تو عدل کے ساتھ اگرچہ اپنے قریب ترین رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ جائے اور اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کرو، یہ وہ ہدایات ہیں جو اللہ نے تمہیں دی ہیں شاید تم یاد رکھو۔

تفسیر آیات

۱۔ مال یتیم کے نزدیک نہ جاؤ۔ یعنی یتیم کے مال پر تصرف نہ کرو۔ البتہ وہ تصرف جائز ہے جو یتیم کے حق میں ہو۔ مثلا یتیم کا مال خراب ہونے کا خطرہ ہے، کوئی پھل گل سڑ جانے کا خطرہ ہے تو اسے فروخت کرنا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ کے مصداق ہے۔ البتہ رشد کو پہنچ جائے اور اس وقت خود تصرف کرنے کا اہل ہو جائے تو اس کو یتیم نہیں کہتے۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورہ نساء آیت ۶۔

۲۔ ناپ تول میں انصاف کرو اور پورا تولو۔ اس میں ممکن حد تک عدل و انصاف قائم رکھنا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو جیسا سورہ مطففین میں فرمایا:

وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ وَ اِذَا کَالُوۡہُمۡ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمۡ یُخۡسِرُوۡنَ (۸۳ مطففین : ۱ تا ۳)

ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا تولتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم کر دیتے ہیں۔

لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا: ہم کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتے۔ اگر بھول چوک اور غیر ارادی یا نادانستہ طور پر کمی بیشی ہو جائے تو اس کا مؤاخذہ نہ ہو گا۔ یہ اسلامی شریعت کا اپنی جگہ ایک مستقل اصول ہے کہ جو کام انسان کی طاقت کار کے دائرے میں نہیں آتا، وہ اس کا مکلف نہیں ہوتا۔

۳۔ جب شہادت دینا یا فیصلہ سنانا ہو تو اپنی گفتار میں بھی عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑو، خواہ یہ شہادت، یہ فیصلہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے خلا ف ہی کیوں نہ ہو۔ کنبہ پروری اور قریبی رشتوں سے جذباتی رشتہ انسانی جبلت میں ہے۔ اس کے لیے عدل کے حکم کے ساتھ قریبی رشتہ داروں کا ہمیشہ ذکر آتا ہے۔ گفتار کے عدل و انصاف میں گواہی، اقرار، وصیت، فتویٰ اور فیصلے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔

۴۔ اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ یہ عہد فطری بھی ہیں اور شرعی بھی۔ اس طرح شریعت کے تمام احکام عہد خدا میں آتے ہیں نیز انسان کی اپنی عقل اور وجدان کے تقاضے بھی عہد خدا میں آتے ہیں۔


آیت 152