آیت 150
 

قُلۡ ہَلُمَّ شُہَدَآءَکُمُ الَّذِیۡنَ یَشۡہَدُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ ہٰذَا ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَلَا تَشۡہَدۡ مَعَہُمۡ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ وَ ہُمۡ بِرَبِّہِمۡ یَعۡدِلُوۡنَ﴿۱۵۰﴾٪

۱۵۰۔(ان سے) کہدیجئے: اپنے گواہوں کو لے آؤ جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ نے اس چیز کو حرام کیا ہے، پھر اگر وہ (خود ساختہ) شہادت دیں بھی تو آپ ان کے ساتھ گواہی نہ دیں اور آپ ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور دوسروں کو اپنے رب کے برابر سمجھتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ ہَلُمَّ شُہَدَآءَکُمُ اگرتمہارا یہ دعویٰ درست ہے کہ ان چیزوں کو اللہ نے حرام کیا ہے تو گواہ پیش کرو۔ گواہ وہ ہوتا ہے جس کے سامنے یہ عمل انجام دیا گیا ہو۔ ایسا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔ اسی لیے اس امر کو امر تعجیزی کہتے ہیں۔ یعنی گواہ پیش کرو کا حکم صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ اس عمل کا ناممکن ہونا اور نتیجتاً اس دعویٰ کا باطل ہونا ثابت ہو جائے۔ شُہَدَآءَکُمُ: تم خود مدعی ہو، اپنے علاوہ گواہوں کو پیش کرو۔

۲۔ فَاِنۡ شَہِدُوۡا: اگر ان کو بیرونی گواہی نہیں ملتی اور یہ لوگ کوئی خود ساختہ گواہی پیش کرتے ہیں تو یہ گواہی دو باتوں کی وجہ سے مسترد ہو گی: اول یہ کہ یہ لوگ خواہشات کے غلام ہیں، حقائق کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ دوم یہ کہ یہ لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، کیونکہ ایمان بہ آخرت انسان کو جھوٹ بولنے اور گناہ کا ارتکاب کرنے سے روک سکتا ہے۔

۳۔ فَلَا تَشۡہَدۡ مَعَہُمۡ: یعنی آپؐ ان کی گواہی قبول نہ کریں بلکہ اس گواہی کا باطل ہونا واضح کریں۔ یہ تعبیر ان کے کذب کو واضح کرنے کے لیے اختیار کی گئی ورنہ رسول کے لیے ممکن نہیں ان کی تصدیق کریں۔

اہم نکات

۱۔ آخرت پر ایمان انسان کے کردار و سیرت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

۲۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا کس قدر سنگین جرم ہے کیونکہ یہ تشریع و تقنین میں شرک باللہ ہے۔


آیت 150