آیات 98 - 99
 

اِلَّا الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ حِیۡلَۃً وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ سَبِیۡلًا ﴿ۙ۹۸﴾

۹۸۔بجز ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کے جو نہ کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ کوئی راہ پاتے ہیں۔

فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّعۡفُوَ عَنۡہُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوۡرًا﴿۹۹﴾

۹۹۔ عین ممکن ہے اللہ انہیں معاف کر دے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔

تشریح کلمات

حِیۡلَۃً:

( ح و ل ) اس تدبیر کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز تک پوشیدہ طور سے پہنچا جا سکے۔ عام طور پر اس کا استعمال بری تدبیر کے لیے ہوتا ہے لیکن کبھی ایسی تدبیر کے متعلق بھی ہوتا ہے، جس میں حکمت اور مصلحت ہوتی ہے۔ (مفردات راغب)

تفسیر آیات

سابقہ آیات میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو حقیقتاً بے بس اور مجبور نہ تھے۔ وہ اپنے دین کی خاطر ہجرت کرنے پر قادر تھے۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو واقعی بے بس اور مجبور تھے اور ہجرت کرنے کا کوئی وسیلہ نہیں تھا اور کوئی قابل عمل تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی تھی۔

مستضعف کون ہیں؟: اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ممکن نہ ہو اور اس میں انسان کی اپنی کسی کوتاہی کو دخل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرماتا ہے۔ علامہ طباطبائیؒ نے اس کی متعدد صورتیں بیان کی ہیں ، جن کا خلاصہ یہ ہے :

i. ایسی سرزمین میں زندگی بسر کرتا ہو، جہاں کوئی عالم دین میسر نہ آنے کی وجہ سے دینی تعلیمات پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔

ii. یا دینی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے اس قدر شدید عذاب اٹھانا پڑتا ہے جو ناقابل تحمل ہو اور وہاں سے ہجرت کرنے کا کوئی وسیلہ اور ذریعہ بھی نہ ہو۔

iii. حق تک رسائی حاصل نہ کر سکے اور مختلف غیر اختیاری عوامل کی وجہ سے اس سے حق پوشیدہ رہے، ورنہ اگر اسے حق کا علم ہو جاتا تو وہ اس کے ساتھ عناد اور دشمنی نہ کرتا، بلکہ اسے قبول کر لیتا۔ یہ اس صورت کی بات ہے جب انسان غیر اختیاری طور پر غفلت کا شکار ہو جاتا ہے۔ البتہ شرط یہ ہے کہ اس غفلت یا عدم رسائی میں مکلف کے عمل کو کوئی دخل نہ ہو، یعنی جان بوجھ کر نہ تو اس کی کوتاہی اور نہ ہی غفلت کو دخل ہو۔

علامہ طباطبائی کے نزدیک یہ غفلت غیر اختیاری ہے۔ فرما تے ہیں:

و لا قدرۃ مع الغفلۃ اور غیر اختیار ہونے کی صورت میں لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ۔۔۔ (۲ بقرہ : ۲۸۶۔ اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیاہ ذمے داری نہیں ڈالتا۔) کے تحت یہ شخص حق کا مکلف اور ذمہ دار نہیں رہتا۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

لہٰذا خلاصہ یہ کہ جو بغیر کوتاہی کے حق تک رسائی حاصل نہ کر سکے، وہ مُسۡتَضۡعَف ہے۔

احادیث

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے :

لَاَ یقَعْ اِسْمُ الْاِسْتِضْعَافِ عَلَی مَنْ بَلَغَتْہُ الْحُجَّۃُ فَسَمِعَتْھَا اُذْنُہٗ وَ وَعَاھَا قَلْبُہٗ ۔ (نہج البلاغۃ۔ بحار ا لانوار ۶۶: ۲۲۷)

مُسۡتَضۡعَف اس شخص کو نہیں کہا جاتا جس تک حجت پہنچ گئی، اس کے کانوں نے اسے سنا اور دل سے اسے سمجھ لیا۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت ہے:

اَلضَّعَیْفُ مَنْ لَمْ تُرْفَعْ اِلَیْہِ حُجَّۃٌ وَ لَمْ یَعْرِفِ الِاخْتِلَافَ فَاِذَا عَرَفَ الاِخْتِلَافَ فَلَیْسَ بِمُسْتَضْعَفٍ (اصول الکافی ۲ : ۴۰۶۔ باب مُسۡتَضۡعَف)

مُسۡتَضۡعَف وہ ہے جس تک حجت نہ پہنچے اور اسے اختلاف کا علم نہ ہو، جب اختلاف کا علم ہو جائے تو وہ مُسۡتَضۡعَف نہیں ہے۔


آیات 98 - 99