آیات 69 - 70
 

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾

۶۹۔اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ انبیاء، صدیقین، گواہوں اور صالحین کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں۔

ذٰلِکَ الۡفَضۡلُ مِنَ اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیۡمًا﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ یہ فضل اللہ کی طرف سے (ملتا) ہے اور علم و آگاہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ: اطاعت گزاروں کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ خود گواہ، صدیق اور صالح ہوں گے، بلکہ فرمایا اطاعت گزار ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی درجات میں فرق کے باوجود صحبت حاصل رہے گی۔

۲۔ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ: جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے، وہی لوگ ہیں جو صراط مستقیم پر ہیں۔ آگے ان کا تفصیلی ذکر ہوتا ہے:

الف۔ النَّبِیّٖنَ: انبیائے کرام علیہم السلام ان ذوات مقدسہ کو کہتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔

ب۔ الصِّدِّیۡقِیۡنَ: جن کا قول و فعل دونوں سچائی پر مبنی ہوں۔ یعنی ان کا کوئی عمل اور کوئی قول ان کے ایمان کے خلاف نہ ہو۔ وہ اپنے ہر قول اور ہر عمل میں سچے ہوں۔ کیونکہ کوئی اگر اپنے ایمان و عقیدے کے خلاف عمل کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے ایمان کی تصدیق نہیں کرتا، چونکہ یہ ایمان کے منافی ہے، جسے عصیان اور گناہ کہتے ہیں۔ صدیقین وہ ہیں جن کا قول و فعل ان کے ایمان کی تصدیق کرے۔

ج۔ الشُّہَدَآءِ: جن کا قول اور فعل ان کے ایمان کی گواہی دے۔ راہ حق میں شہید ہونے والے شاید اسی وجہ سے شہید کہلاتے ہیں کہ ان کا راہ خدا میں جان دینا ان کے پختہ ایمان پر گواہ ہے نیز گواہ سے مراد وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو اعمال عباد پر گوا ہ ہیں، جس کا سورۂ بقرہ آیت ۱۴۳ میں ذکر ہوا ہے۔ علامہ طباطبائی کا مؤقف یہ ہے کہ شہداء سے مراد گواہ ہیں۔ یعنی جو ہستیاں اعمال عباد پر گواہ ہیں، ان کو قرآن شہید کہتا ہے۔ راہ خدا میں مارے جانے والوں کے لیے شہید کہنے کی اصطلاح قرآنی نہیں ہے، بعد کی اصطلاح ہے۔

د۔ الصّٰلِحِیۡنَ: نیکی پر عمل جاری رکھنے والے صالحین ہیں۔ چنانچہ قرآن میں عمل کے ساتھ ہمیشہ صالح کا لفظ آیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿﴾ (۳ آل عمران ۱۱۴)

وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نیک کاموں کا حکم دیتے، برائیوں سے روکتے اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی صالح لوگوں میں سے ہیں۔

۳۔ ذٰلِکَ الۡفَضۡلُ مِنَ اللّٰہِ: یعنی اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی صورت میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ قرار دینا، یہ اللہ کے فضل و کرم سے ہے ورنہ بندہ خود صرف اپنے عمل کے ذریعے اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتا۔

۴۔ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیۡمًا: آگاہی کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ اس جملے میں اس بات کی ضمانت آ گئی کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی صورت میں جو ثواب مقرر ہے، اس میں لا علمی کی وجہ سے فرق نہیں آئے گا چونکہ ثواب دینے والا علیم ہے۔

احادیث

امالی شیخ میں مذکور ہے:

انصار کا ایک صحابی رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہؐ! میں آپؐ کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا، جب میں گھر جاتا ہوں اور آپؐ کو یاد کرتا ہوں تو میں اپنا کاروبار چھوڑ کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور محبت بھری نگاہوں سے آپؐ کا دیدار کرتاہوں۔ مجھے خیال آیا کہ قیامت کے دن آپؐ جنت کے اعلیٰ علیون میں ہوں گے تو اس وقت میں آپؐ کی زیارت کیسے کر سکوں گا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ (ص) نے اس شخص کو بلا کر یہ بشارت سنائی۔ (امالی الشیخ طوسی ص ۶۲۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مومن دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ جنہوں نے اللہ کی طرف سے عائد کردہ

تمام شرائط پوری کر دیں، یہ مومن انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے، جو بہترین رفیق ہیں۔ یہ مومن دوسروں کی شفاعت کریں گے، خود شفاعت کے محتاج نہ ہوں گے۔ انہیں دنیا و آخرت دونوں میں کسی خوف و ہراس سے دوچار ہونے کی نوبت نہیں آئے گی۔ دوسرے وہ جن کے قدموں میں لغزش آئی ہو گی، وہ سبز پودے کی طرح ہوا کے جھونکے کے ساتھ اِدھر ادھر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ دنیا و آخرت میں خوف و ہراس سے دوچار ہوں گے، انہیں شفاعت نصیب ہو گی تو ان کی عاقبت بخیر ہو گی۔

اہم نکات

۱۔درجات میں نمایاں فرق کے باوجود انبیاءؑ کی صحبت ملنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جنت میں زمان و مکان کا وہ تصور نہ ہو گا جو اس دنیا میں ہے۔


آیات 69 - 70