آیات 51 - 52
 

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ وَ الطَّاغُوۡتِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہٰۤؤُلَآءِ اَہۡدٰی مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سَبِیۡلًا﴿۵۱﴾

۵۱۔ کیا آپ نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے؟ جو غیر اللہ معبود اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں: یہ لوگ تو اہل ایمان سے بھی زیادہ راہ راست پر ہیں۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ یَّلۡعَنِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۵۲﴾

۵۲۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے اس کے لیے آپ کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔

تشریح کلمات

الجبت:

( ج ب ت ) بے اصل یا ہروہ چیز جس میں کوئی بھلائی نہ ہو یا ہر وہ چیز، اللہ کے سوا جس کی پرستش کی جائے۔

الطَّاغُوۡتِ:

اس کی تشریح سورہ بقرہ آیت ۲۵۶ میں ہو چکی ہے۔

تفسیر آیات

شان نزول: کفار قریش نے یہود کی ایک جماعت سے پوچھا کہ تم اہل کتاب ہو، بتاؤ ہمارا دین برحق ہے یا محمد (ص) کا دین؟ یہود کی اس جماعت نے کہا: تمہارا دین زیادہ ہدایت یافتہ اور راہ راست پر ہے۔

۱۔ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ: اگرچہ ان لوگوں کو کتاب کا حصہ مل سکا ہے اور تحریف کی نذر ہونے کی وجہ سے پوری کتاب نہیں مل سکی، تاہم یہ لوگ وحی، کتاب و آخرت کو مانتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ لوگ اسلام دشمنی کی وجہ سے اس مذہب کو مانتے ہیں، جس کی ان کے ساتھ کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔

۲۔ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ: یہ لوگ جبت پر ایمان لاتے ہیں۔ جبت پر ایمان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، لیکن اگر جبت کا مطلب بے اصل اور بے بنیاد چیز لیا جائے تو تمام اقوال میں کچھ چیزیں قدر مشترک کے طور پر سامنے آتی ہیں، جن میں بت، سحر، شیطان، اوہام پرستی اور بدشگونی وغیرہ، یعنی وہ چیزیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ، شامل ہیں۔

طاغوت سے مراد وہ قوتیں ہیں جو حدود اللہ اور احکام شریعت کے مقابلے میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ آیت میں جبت اور طاغوت پر ایمان لانے والوں اور کافروں کو اہل ایمان سے زیادہ ہدایت یافتہ قرار دینے والوں کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔

۳۔ وَ یَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: یہ وحی اور رسالت کے ماننے والے لوگ، ان مشرکین کو اَہۡدٰی زیادہ ہدایت یافتہ قرار دیتے ہیں، جو وحی اور رسالت کو نہیں مانتے۔

۴۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ: جو لوگ حق کو چھپاتے ہیں اور عناد و دشمنی کی وجہ سے حقیقت پر پردہ ڈالتے ہیں۔ یہ بہت بڑا جرم ہے۔ قرآن و حدیث دونوں میں ایسے لوگوں پر پرزور الفاظ میں لعنت بھیجی گئی ہے۔

۵۔ وَ مَنۡ یَّلۡعَنِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا: لعنت کے نتیجے میں جب یہ اللہ کی رحمت سے دور ہو جائے گا تو رحمت کا کوئی اور منبع ہے نہیں، جہاں سے ان کو کمک میسر آئے۔

اہم نکات

۱۔ فتوؤں کا سہارا لینا، ان لوگوں کی قدیم روایت ہے، جو دلیل و منطق نہیں رکھتے۔


آیات 51 - 52