آیت 46
 

وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۴۶﴾

۴۶۔ اور جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونے کا خوف رکھتا ہے اس کے لیے دو باغ ہیں

تفسیر آیات

ایک خوف، عذاب کا ہوتا ہے اور ایک اللہ کی ناراضگی کا ہوتا ہے۔ جو لوگ رضایت رب کے درپے ہوتے ہیں ان کے سامنے ثواب نہیں ہوتا اگرچہ انہیں علم ہے رضایت رب کا لازمہ ثواب ہے۔ اسی طرح جو لوگ اللہ کی ناراضگی سے خائف ہوتے ہیں ان کے ذہن میں عذاب کا خوف نہیں ہوتا۔ ان کے قلب و ضمیر پر یہ بات حاکم ہے کہ انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ بندگی کا حق ادا نہ ہونے پر شرمندہ ہیں۔ اسی لیے وہ اس کی بارگاہ میں جانے کا خوف دل میں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے خوف کو فضیلت حاصل ہے اور خصوصیت کے حامل دو باغوں کا ذکر ہے ورنہ دیگر آیات میں باغات (جنا ت عدن) کا ذکر ہے۔

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مَنْ عَلِمَ اَنَّ اللہَ یَرَاہُ وَ یَسْمَعُ مَا یَقُولُ وَ یَعْلَمُ مَا یَعْمَلُہُ مَنْ خَیْرٍ اَوْ شَرٍّ فَیَحْجُزُہُ ذَلِکَ عَنِ الْقَبِیحِ مِنَ الْاَعْمَالِ فَذَلِکَ الذَّی خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَ نَہَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوَی۔ (الکافی ۲: ۷۰)

جو یہ جانتا ہے کہ وہ خیر و شر کی جو بات کرتا ہے اسے اللہ دیکھتا اور سنتا ہے اور وہ جو عمل انجام دیتا ہے اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے اس لیے وہ قبیح اعمال سے رک جاتا ہے یہ شخص وہی ہے جو مقام رب سے خوف کرتا اور نفس کو خواہشات سے روکتا ہے۔


آیت 46