آیت 23
 

وَ قَالَ قَرِیۡنُہٗ ہٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیۡدٌ ﴿ؕ۲۳﴾

۲۳۔ اور اس کا ہم نشین (فرشتہ) کہے گا: جو میرے سپرد تھا وہ حاضر ہے۔

تشریح کلمات

عَتِیۡدٌ:

( ع ت د ) ضرورت کی چیزوں کو ذخیرہ کر لینا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ قَرِیۡنُہٗ: اکثر مفسرین کے نزدیک یہ ہم نشین وہ فرشتہ ہے جو دنیا میں اس کے اعمال ثبت کرنے پر مامور تھا۔ وہ فرشتہ کہے گا: جو نامۂ اعمال میرے سپرد تھا حاضر ہے۔ دیگر مفسرین کا خیال ہے کہ اس ہم نشین سے مراد شیطان ہے چونکہ قرآن میں شیطان کو قرین ہم نشین کہا ہے:

نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ (۴۳زخرف: ۳۶)

ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔

اس صورت میں شیطان کہے گا: یہ وہ شخص ہے جو میرے سپرد تھا۔ آج یہ جہنم کے لیے حاضر ہے۔ اس پر اگلی آیت قرینہ ہو سکتی ہے:

قَالَ قَرِیۡنُہٗ رَبَّنَا مَاۤ اَطۡغَیۡتُہٗ وَ لٰکِنۡ کَانَ فِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ (۵۰ قٓ: ۲۷)

اس کا ہم نشین (شیطان) کہے گا: ہمارے پروردگار! میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود گمراہی میں دور تک چلا گیا تھا۔

اس آیت میں بھی شیطان کو قرین کہا ہے۔

مگر یہ جملہ مَا لَدَيَّ جومیرے پاس ہے، شیطان کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا چونکہ قیامت کے دن شیطان کے پاس کچھ نہیں ہو گا اور یہ کہنا جہنم شیطان کے پاس ہے درست معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح مَا لَدَیَّ سے مراد اس انسان کو لینا کہ یہ وہ انسان ہے جو میرے قبضے میں تھا، بعید از فہم ہے۔ لہٰذا قرین سے مراد فرشتہ ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ابو بصیر کی ایک روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں: میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: ہٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیۡدٌ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا:

ھو الملک الذی یحفظ علیہ عملہ۔ (بحار الانوار۵: ۳۲۳)

یہ وہ فرشتہ ہے جو اس کے عمل کو اس کے خلاف حفظ و ثبت کرتا تھا۔


آیت 23