آیات 34 - 36
 

اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ لَیَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ یہ لوگ ضرور کہیں گے:

اِنۡ ہِیَ اِلَّا مَوۡتَتُنَا الۡاُوۡلٰی وَ مَا نَحۡنُ بِمُنۡشَرِیۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ کہ یہ صرف ہماری پہلی موت ہے پھر ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔

فَاۡتُوۡا بِاٰبَآئِنَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو (دوبارہ زندہ کر کے) پیش کرو۔

تفسیر آیات

تاریخ انبیاء علیہم السلام خاص کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی تاریخ بیان اس لیے بھی کی جاتی ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے باعث تسلی اور منکرین کے لیے مایۂ عبرت بن جائے۔ چنانچہ بنی اسرائیل اور فرعون کا عبرتناک واقعہ سنانے کے بعد رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاصر منکرین کی طرف کلام کا رخ ہو گیا۔

۱۔ مَوۡتَتُنَا الۡاُوۡلٰی: انکار معاد کے بارے میں مشرکین کہتے ہیں: صرف پہلی موت ہو گی۔ اس کے بعد کوئی حیات نہیں ہے۔ ممکن ہے مشرکین کا یہ خیال ہو کہ موت کے بعد اگر کوئی حیات ہے تو اس کے بعد پھر ایک اور موت ہو گی۔ وہ حیات ابدی کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔

۲۔ فَاۡتُوۡا بِاٰبَآئِنَاۤ: روایت ہے کہ ابوجہل نے یہ کہا تھا: اگر آپ اپنے اس دعویٰ میں سچے ہیں تو اپنے جد اعلیٰ قصی بن کلاب کو زندہ کریں۔ وہ ایک سچا انسان تھا۔ ہم ان سے مرنے کے بعد کے حالات پوچھیں گے۔ ( مجمع البیان )

جواب یہ دیا گیا ہے: رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مرنے کے بعد جزا کے لیے اٹھایا جائے گا۔ دنیا دار تکلیف ہے، دار جزا نہیں ہے۔ مزید کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ الجاثیہ آیت ۲۵۔


آیات 34 - 36