آیات 41 - 42
 

فَاِمَّا نَذۡہَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنۡہُمۡ مُّنۡتَقِمُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ پس اگر ہم آپ کو اٹھا بھی لیں تو یقینا ہم ان سے انتقام لینے والے ہیں۔

اَوۡ نُرِیَنَّکَ الَّذِیۡ وَعَدۡنٰہُمۡ فَاِنَّا عَلَیۡہِمۡ مُّقۡتَدِرُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ یا (آپ کی زندگی میں) آپ کو وہ (عذاب) دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے، یقینا ہم ان پر قدرت رکھنے والے ہیں

تفسیر آیات

مکہ کے مشرکین اس توحیدی تحریک کو الٰہی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے مربوط سمجھتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ یہ شخص اگر ختم ہو جائے تو تحریک بھی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ کفار کی اس خوش فہمی کو دور کرنے کے لیے فرمایا: ہمیں ان مشرکین سے انتقام لینا ہے۔ خواہ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد ہو یا آپ کی حیات میں ہو۔

چنانچہ چشم جہاں نے دیکھ لیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی شہر مکہ میں فاتحانہ داخل ہوتے ہیں اور ان مشرکین میں جو بچ گئے تھے وہ ماتھے پر طلقاء کا داغ لے کر زندہ رہے۔

سیوطی الدر المنثور میں جابر بن عبد اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے:

فَاِمَّا نَذۡہَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنۡہُمۡ مُّنۡتَقِمُوۡنَ آپ کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ہم انتقام لینے والے ہیں نزلت فی علی بن ابی طالب۔ انہ ینتقم من الناکثین و القاسطین بعدی۔ یہ آیت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ میرے بعد بیعت توڑنے والوں اور ظالموں سے انتقام لے گا۔

اس طرح کی ایک روایت مغازلی نے اپنی مناقب صفحہ ۳۲۰ میں، حسکانی نے اپنی تفسیر شواہد التنزیل میں جابر اور ابن عباس دونوں سے روایت کی ہے۔ ابو نعیم نے حضرت حذیفہ سے فی ما نزل من القرآن فی علی میں روایت کی ہے: انا منتقمون۔ بعلی بن ابی طالب ۔ ملاحظہ ہو غایۃ المرام۔

حاکم مستدرک میں باب مناقب علی علیہ السلام میں ابن عباس سے روایت ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا: لا قتلن العمالقۃ فی کتیبۃ فقل لہ جبرئیل او علی۔ قال النبی او علی بن ابی طالب۔ میں ایک لشکر کے ساتھ عمالقہ کو قتل کروں گا تو جبرئیل نے کہا: یا علی قتل کریں گے تو نبیؐ نے فرمایا (میں) یا علی قتل کریں گے۔


آیات 41 - 42