آیت 51
 

اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ ﴿ۙ۵۱﴾

۵۱۔ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیاوی زندگی میں بھی مدد کرتے رہیں گے اور اس روز بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور مومنوں کی نصرت فرمائے گا۔ اللہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا اور یہ بھی وعدہ ہے جسے اللہ کی نصرت میسر آتی ہے اس پر کوئی غالب نہیں آ سکتا:

اِنۡ یَّنۡصُرۡکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۶۰)

(مسلمانو!) اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا۔

کسی مشن کی کامیابی و ناکامیابی اس کے انجام کے اعتبار سے ہے۔ کسی تحریک نے اپنے لیے جس مقصد کا تعین کیا ہے وہ حاصل ہو جاتا ہے تو کامیابی ہے۔ دوسری صورت میں ناکامی ہے۔

یہاں سوال یہ آئے گا: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے سامنے کیا مقصد رکھا ہے؟ کیا وہ مقصد اہل حق کا اس طرح غلبہ ہے کہ اہل باطل کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جائے اور معاملہ یکطرفہ ہو جائے۔ یعنی اہل حق کے موجود رہنے کا حق رہ جائے؟ یا یہ مقصد دیا ہے کہ اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچانے اور لوگوں پر حجت پوری کرنے کے لیے آواز حق کو زندہ کیا جائے؟

اگر اللہ نے پہلا مقصد اپنے رسولوں کے سامنے رکھا ہے تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل باطل ابھی تک اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔ اللہ کا وعدۂ نصرت کب پورا ہو گا؟ اور اگر اللہ نے دوسرا مقصد سامنے رکھا ہے تو صاف نظر آتا ہے اللہ نے اپنا وعدہ نصرت پورا کیا ہے۔ آج آواز حق اپنی پوری قوت کے ساتھ زندہ ہے۔

آج نمرود و فرعون کی طاقت خاک میں مل گئی ہے لیکن کرۂ ارض پر ابراہیم و موسیٰ علیہما السلام زندہ ہیں۔ ابوجہل تاریخ کی تاریک تہوں میں دفن ہو گیا ہے مگر عبد اللہ کے یتیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بول بالا ہے۔ یزید کا نام داخل دشنام ہے جب کہ حسین علیہ السلام کانام فاتحین میں سرفہرست ہے۔

لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ آواز حق کو اللہ کی نصرت حاصل رہی ہے اور یہ اپنی پوری طاقت و قوت کے ساتھ زندہ ہے جب کہ حق کو دبانے کی کوشش کرنے والی قوتیں اپنے مقصد میں ناکام ہیں۔

درست ہے باطل قوتیں ہماری سرزمینوں، اقتصادیات اور ہمارے سیاسی امور پر تسلط قائم کرتی ہیں لیکن حق کی آواز کو خود ان کے اپنے ملکوں میں پذیرائی مل رہی ہے۔ وہ ہمارے درمیان مادی طاقت کا نفوذ کرتے ہیں جو وقتی اور ناپائیدار ہے اور حق ان کے ذہنوں میں نفوذ کر رہا ہے جو ابدی اور دائمی ہے۔ فافہم ذلک۔

فرانس میں حجاب پر اور سوئزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی نفوذ حق سے خائف ہونے والوں کی پریشانی حال کا مظہر ہے۔

۲۔ وَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ: جس دن گواہ اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے اس دن بھی اللہ اپنے رسولوں اور مومنین کی نصرت فرمائے گا۔ البتہ دنیااور آخرت کی نصرت میں فرق ہو گا۔ دنیا دار امتحان ہے۔ یہاں باطل کوبھی سرکشی کی مہلت دی جاتی ہے۔ حق کی آواز مٹانے کی باطل کی کوشش ناکام بنا دی جاتی ہے اور اہل حق کو اللہ نصرت عطا فرماتا ہے۔

جب کہ قیامت کے دن کی نصرت یہ ہے کہ رسولوں اور مومنوں کو نعمتوں سے نوازا جائے گا اور ان کے دشمنوں کو دائمی رسوائی اور عذاب میں ڈال دیا جائے گا۔


آیت 51