آیت 46
 

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَعِظُکُمۡ بِوَاحِدَۃٍ ۚ اَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلّٰہِ مَثۡنٰی وَ فُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوۡا ۟ مَا بِصَاحِبِکُمۡ مِّنۡ جِنَّۃٍ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا نَذِیۡرٌ لَّکُمۡ بَیۡنَ یَدَیۡ عَذَابٍ شَدِیۡدٍ﴿۴۶﴾

۴۶۔ کہدیجئے: میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہو ایک ایک اور دو دو کر کے پھر سوچو کہ تمہارے ساتھی میں جنون کی کوئی بات نہیں ہے، وہ تو تمہیں ایک شدید عذاب سے پہلے خبردار کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اِنَّمَاۤ اَعِظُکُمۡ بِوَاحِدَۃٍ: جو لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجنون کہتے ہیں انہیں اللہ صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہے۔ طویل مباحث کی جگہ صرف ایک نکتے کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے جس میں تمام مسائل کا حل ہے:

۲۔ اَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلّٰہِ: وہ نکتہ یہ ہے کہ پوری استقامت کے ساتھ برائے خدا قدم اٹھائے: اَنۡ تَقُوۡمُوۡا۔۔۔ عزم و ارادے پختہ ہوں، توجہ میں یکسوئی ہو، قصد میں انحراف نہ ہو۔ لِلّٰہِ ، یہ عزم، یہ ارادہ صرف اور صرف اللہ کی خاطر ہو۔ ذاتی خواہشات اور مصلحتوں سے دور، معاشرے کے دباؤ سے آزاد ہو کر صرف اللہ کے لیے قدم اٹھائے۔

۳۔ مَثۡنٰی وَ فُرَادٰی: یہ کام انفرادی طور پر بھی ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی فطرت، اپنے وجدان کے ساتھ سرگوشی کرے۔ کسی قسم کے ہنگامے سے دور، صرف اپنی جبلت پر تکیہ کیا جائے۔ معاشرتی، ذہنی اور دیگر عوامل سے الگ ہو کر تنہائی میں سوچ لو۔

یہ کام باہمی تبادلہ افکار سے بھی ہو سکتا ہے کہ انسان درست سمت کی طرف جانے کے لیے دوسروں کی عقول و افکار سے فائدہ اٹھائے۔

۴۔ ثُمَّ تَتَفَکَّرُوۡا: پھر اپنی فکر سے کام لو۔ اپنی عقل و خرد کو استعمال کرو۔ صرف عقل کو استعمال کر کے سوچو۔ غیر عقلی امور سے آزاد ہو کر صرف اپنی انسانی سوچ سے کام لو۔

۵۔ مَا بِصَاحِبِکُمۡ مِّنۡ جِنَّۃٍ: فکر و تعقل کا مضمون یہ ہو کہ جس نے زندگی کا ایک معتدبہ حصہ تمہارے ساتھ گزارا ہے، کسی مرحلے پر تم نے انہیں عقل و خرد میں نہ صرف خفیف نہیں پایا بلکہ مشکل حالات میں ان کی عقل وخرد سے فائدہ اٹھایا ہے۔

۶۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا نَذِیۡرٌ لَّکُمۡ: نہ صرف یہ کہ دیوانہ نہیں ہے بلکہ تمہارا خیرخواہ ہے۔ تمہیں ابدی عذاب سے نجات دلانا چاہتا ہے۔عاقل ہی نہیں، عقل ساز بھی ہے۔

اہم نکات

۱۔ فکر سے راہ نجات ہموار ہو جاتی ہے۔

۲۔ فکر اپنے وجدان کے ساتھ تنہائی میں اور دوسرے مفکرین کے ساتھ ہو سکتی ہے۔


آیت 46