آیت 30
 

اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے: خدائے رحمن رحیم کے نام سے

تفسیر آیات

اس آیت میں چند ایک نکات قابل توجہ ہیں :

۱۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ: قرآن کا حصہ ہے۔ جب یہ قرآنی آیت ہے تو سورہ ہائے قرآن کی ابتدا میں بھی قرآن کی آیت شمار ہوتی ہے جیسا کہ شیعہ امامیہ کا موقف ہے۔قرآن میں بہت سی آیات مکرر ہیں اور سب قرآن ہیں۔

۲۔ بِسۡمِ اللّٰہِ: مکمل لکھنا چاہیے۔ مختصر کر کے لکھنا خلاف سنت انبیاء ہے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین بسمک اللّٰھم لکھنا چاہتے تھے جب کہ رسول اللہ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ لکھنا چاہتے تھے۔ لہٰذا بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کی جگہ صرف بسمہ تعالیٰ لکھنا خلاف سنت ہے۔

۳۔ کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے پہلی مرتبہ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ سے ابتدا کی ہے۔ یہ عربی ترکیب عبرانی زبان کی نقل بالمعنی ہو سکتی ہے۔چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زبان عبرانی تھی۔

۴۔ ملکہ سبا نے پہلی بار یہ کلمات سنے: بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۔ آفتاب پرست ہونے کی وجہ سے یہ کلمات اس کے لیے ایک جدید اصطلاح تھی۔ اس اللہ کے نام سے جو نہایت رحمت کا مالک اور مہربان ہے۔ ایک مہربان اللہ کے ماننے والے مہربان ہی ہوں گے۔


آیت 30