آیات 208 - 209
 

وَ مَاۤ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا لَہَا مُنۡذِرُوۡنَ﴿۲۰۸﴾٭ۖۛ

۲۰۸۔ اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس بستی کو تنبیہ کرنے والے تھے۔

ذِکۡرٰی ۟ۛ وَ مَا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ﴿۲۰۹﴾

۲۰۹۔ یاد دہانی کے لیے، اور ہم کبھی بھی ظالم نہ تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ پہلے وہ اپنی طرف سے رسول بھیجتا ہے۔ وہ رسول اپنی رسالت کی حقانیت پر دلیل و معجزہ لے کر آتے اور اپنی قوم کو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ رسول قوم کی طرف سے ہونے والی اذیتوں کو برداشت کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ جب ناقابل ہدایت ہوتی ہے تو اس پر عذاب نازل ہوتا ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم میں نو سو پچاس سال تبلیغ کی۔ اس کے بعد طوفان کی شکل میں عذاب آیا۔

۲۔ وَ مَا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ: اللہ فرماتا ہے کہ ہم ظالم نہ تھے۔ یعنی اگر حجت پوری کرنے سے پہلے ان پر عذاب نازل کرتے تو ہم ظاہم ہوتے۔

واضح رہے مسلمانوں کے ایک کلامی مکتب کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ جو کام بھی کرے گا وہ ظلم نہ ہو گا۔ اس نظریے کے تحت اللہ کا فرمان ہم ظالم نہیں ہیں کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے ظلم صادر ہی نہیں ہو سکے گا۔ جو کام بھی ہم سے صادر ہو گا وہ ظلم نہ ہو گا۔ خواہ تمام مؤمنین کو جہنم میں اور کافروں کو جنت میں ڈال دیں۔

شیعہ امامیہ کا نظریہ یہ ہے کہ ظلم قبیح ہے اور اللہ کی ذات قبائح سے پاک و منزہ ہے۔ لہٰذا اللہ ظلم نہیں کرتا، نہ یہ کہ ظلم کر نہیں سکتا۔ دوسری بات یہ کہ اگر اللہ مؤمن کو ثواب اور کافر کو عذاب نہ دے تو یہ ظلم اور ناانصافی ہو گی، غرض خلقت کی نفی اور خلقت عبث ہو جائے گی اور اللہ عبث کاری سے پاک ہے۔ لہٰذا اللہ سے ظلم صادر نہیں ہو سکتا۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی طرف سے ظلم کا خطرہ نہیں، رحمت کی امید ہوتی ہے۔


آیات 208 - 209