آیت 63
 

وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا﴿۶۳﴾

۶۳۔ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر (فروتنی سے) دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے گفتگو کریں تو کہتے ہیں: سلام۔

تشریح کلمات

ہَوۡنًا:

( ھ و ن ) الھوان ۔ نرمی اور تواضع کے معنوں میں نیز ذلت اور رسوائی کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

آنے والی چند آیات میں عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ کی چند اہم خصوصیات بیان فرمائی ہیں:

۱۔ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ: رحمٰن کے بندے اس لیے فرمایا کہ یہ لفظ ذہنوں میں راسخ ہو جائے کہ رحمٰن اللہ تعالیٰ کے ان اسماء میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں۔ چنانچہ یہ نام کسی غیر اللہ کے لیے نہیں بولا جاتا۔

۲۔ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا: رحمٰن کے بندے زمین پر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں۔

چال انسان کی شخصیت کی ترجمانی کرتی ہے۔ مطمئن ضمیر اور فکری اعتدال رکھنے والے کی چال اور شخصیت میں خلا رکھنے والے کی چال میں فرق ہوتا ہے کیونکہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کی شخصیت میں خلا نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ تکبر نہیں، تواضع کرتے ہیں۔ وہ جا ہلوں کے ساتھ الجھتے نہیں ہیں۔

حدیث میں آیا ہے:

سُرْعَۃُ الْمَشْیِ یَذْہَبُ بِبَھَائِ الْمُؤْمِنِ ۔۔۔ (وسائل الشیعۃ ۱۱: ۴۴۰)

تیز قدم چلنے سے مؤمن کا وقار جاتا ہے۔

مؤمن کے اوصاف میں ایک وصف یہ ہے:

مشْیُھُمْ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنٌ ۔۔۔۔ (الکافی ۲: ۲۳۲)

زمین پر ان کی چال باوقار ہوتی ہے۔

۳۔ وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا: اگر جاہل لوگ بدتہذیبی کریں تو رحمٰن کی بندگی کرنے والے اپنے مطمئن ضمیر کا مظاہرہ تہذیب کے ساتھ کریں گے۔ الجاہل سے مراد وہ بدتہذیب مشرک ہیں جو اسلامی تہذیب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ بعض نے اس سے مراد بے وقوف، بے ادب مراد لیا ہے۔

قَالُوۡا سَلٰمًا: سلام سے مراد اسلامی سلام نہیں ہے بلکہ یہ سلام تودیعی ہے جو لاتعلقی کے لیے بولا جاتا ہے۔ یعنی ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں، ہم اپنی سلامتی چاہتے ہیں۔ اس میں بیہودہ گو لوگوں سے نہ الجھنے کی خصلت کی تعریف کی گئی ہے۔

اہم نکات

۱۔ وقار کے ساتھ چلنا، بدتہذیبوں سے نہ الجھنا عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ کے دو اوصاف ہیں۔


آیت 63