آیت 54
 

وَّ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَیُؤۡمِنُوۡا بِہٖ فَتُخۡبِتَ لَہٗ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہَادِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور اس لیے بھی ہے کہ جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جان لیں کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے، پس وہ اس پر ایمان لے آئیں اور اللہ کے سامنے ان کے دل نرم ہو جائیں اور اللہ ایمان والوں کو یقینا راہ راست کی ہدایت کرتا ہے۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ شیطانی دخل اندازی کو بے اثر کر دیتا اور اپنی آیات کو محکم بنا دیتا ہے تاکہ اہل علم کو پتہ چلے کہ اس دخل اندازی کے باوجود کامیابی حاصل کرنے والی بات حق پر مبنی ہے۔ اس راز کے ادراک کے بعد یہ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں۔ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ میں اَنَّہُ کی ضمیر تمنا کی طرف پلٹتی ہے۔

اس طرح شیطان کی دخل اندازی کو اللہ نے آزمائش کا ایک ذریعہ بنایا جس سے کھرے اور کھوٹے الگ ہو جاتے ہیں۔ دلوں کی بیماری میں مبتلا لوگ اسی سے غلط نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ جب کہ اہل کے لیے شیطان کی ناکامی آرزوئے رسول و نبی کی حقانیت کے لیے دلیل بن جاتی ہے۔

ان آیات سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک ایسے مرحلے میں تھی۔ چشم ظاہر بین کو اس تحریک کی کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ یہ اللہ کے رسولؐ ہیں، ہر قسم کی اہانت سے دوچار ہیں۔ ان کے ماننے والے ہر قسم کے مظالم سے دوچار ہیں: ما اوذی نبی مثل ما اوذیت ۔ (کشف الغمۃ ۲: ۵۳۷) کسی نبی کی اتنی اذیت نہیں دی گئی جتنی اذیت مجھے دی گئی ہے۔ شعب ابی طالب میں تین سال تک سوشل بائیکاٹ کی زندگی میں ناقابل تصور اذیتیں اٹھاتے ہیں۔ دشمن یہ طعنہ دیتے ہیں: کہاں ہے اللہ کی نصرت؟ وہ عذاب کیوں نہیں آتا جس سے ہم کو ڈراتے ہو؟

ایسے حالات میں یہ آیت نازل ہوتی ہے اور تاریخ انبیاء علیہم السلام میں اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ کو بیان کیا گیا ہے کہ اللہ عذاب نازل کرنے میں جلدی نہیں کرتا۔ مہلت دیتا ہے اور اپنے وقت پر ان ظالموں کو گرفت میں لیتا ہے۔ ساتھ یہ فلسفہ بھی بیان فرمایا: شیطان کو دخل اندازی کرنے سے روکا نہیں جاتا چونکہ اس سے کھرے کھوٹے الگ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ مفہوم جو ان آیات سے صاف اور واضح طور پر سامنے آتا ہے۔

قصہ غرانیق:

غیر شیعہ مصادر میں اس جگہ ایک داستان بڑی آب و تاب کے ساتھ بیان کی جاتی ہے۔ مفسرین و محدثین نے اس کہانی کو کھلے دل سے اپنی تصانیف میں نمایاں جگہ دی ہے اور قد آور محدثین نے اپنی محدثانہ مہارت کے مطابق اسے صحیح قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ یہ قصہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے معیار پر اترتا ہے۔ ( علی شرط الصحیحین )

ہم اس کہانی کو تفسیر طبری سے نقل کرتے ہیں:

رسو ل کریم (ص) مشرکین مکہ کے ساتھ کعبہ کے پاس بیٹھے یہ سوچ رہے تھے کہ کاش قرآن میں کوئی ایسا مطلب نازل ہو جائے جس سے قوم میرے نزدیک آ جائے ۔ چونکہ رسول اللہ (ص) کو اپنی قوم سے قطعِ تعلقات پر دکھ تھا اور چاہتے تھے کہ قربت کی کوئی صورت نکل آئے۔ اتنے میں سورہ نجم نازل ہوئی۔ آپ (ص) اسے تلاوت فرمانے لگے۔ جب یہاں پہنچے:

اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی شیطان نے دو جملے آپ کے ذہن میں ڈال دیے۔ تلک الغرانیق العلی وان شفاعتہنّ لترجی (یہ بلند مرتبہ بت ہیں جن کی شفاعت کی ضرور امید کی جاتی ہے۔) آپؐ نے یہ جملے بھی پڑھ کر سنا دیے۔ پھر پورے سورے کی تلاوت فرمائی۔ آخر میں آپؐ نے سجدہ کیا اور پوری قوم نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ ولید بن مغیرہ نے ایک مٹی اٹھائی اور اس پر سجدہ کیا جب کہ وہ بوڑھا ہو گیا تھا، سجدہ نہیں کر سکتا تھا۔ مشرکین ان دو جملوں سے بہت خوش ہوئے اور کہا:

اللہ ہی زندہ کرتا ہے، مارتا ہے۔ وہی خلق کرتا ہے، روزی دیتا ہے مگر ہمارے یہ معبود اللہ کے ہاں شفاعت کرتے ہیں۔ اگر آپ نے بھی ان بتوں کے بارے میں کچھ حصہ اعتراف کیا تو ہم آپؐ کے ساتھ ہیں۔

شام کو جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: یہ آپؐ نے کیا کہدیا؟ یہ دونوں فقرے میں تو نہیں لایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نے اللہ پر افترا باندھا ہے؟ میں نے ایسی بات کی اللہ کی طرف نسبت دی جو اللہ نے نہیں کہی۔ اس پر اللہ نے وحی بھیجی: وَ اِنۡ کَادُوۡا لَیَفۡتِنُوۡنَکَ عَنِ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ لِتَفۡتَرِیَ عَلَیۡنَا غَیۡرَہٗ ٭ۖ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوۡکَ خَلِیۡلًا ۔ (۱۷ بنی اسرائیل:۷۳) ’’۱ور (اے رسول)یہ لوگ آپ کو وحی سے منحرف کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے تاکہ آپ (وحی سے ہٹ کر) کوئی اور بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کریں۔ اس صورت میں وہ ضرور آپ کو دوست بنا لیتے۔‘‘ اس آیت کے نزول سے آپؐ بڑے مغموم رہے تو یہ آیت نازل ہوئی: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ ۔۔۔ آخر الآیۃ۔ جو لوگ حبشہ ہجرت کر گئے تھے ان کو خبر ملی کہ سب اہل مکہ نے اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ اپنے اپنے قوم قبیلوں کی طرف واپس آ گئے۔

( الغرانیق، غرنوقہ کی جمع ہے۔ سفید پرندے کو کہتے ہیں۔ ( العین ) وہ اپنے بتوں کو ان سفید پرندوں سے تشبیہ دیتے تھے جو فضا میں پرواز کرتے ہیں۔)

اس قصے کو تقریباً تمام مفسرین اور اکثر محدثین نے نقل کیا ہے۔ ان میں سے بعض نے اس قصے کو من گھڑت قرار دیا ہے جیسے ابن کثیر، بیہقی، قرطبی، قاضی عیاض، امام رازی وغیرہ۔

دوسری طرف بہت سی قدآور تفسیری اور حدیثی شخصیتوں نے اسے صحیح تسلیم کیا ہے۔ جیسے طبری جو فقہ و تفسیر اور تاریخ کے امام مانے جاتے ہیں، ابوبکر جصاص، زمخشری، ابن حجر وغیرہ۔

ان میں ابن حجر کا استدلال سب سے زیادہ قابل توجہ ہے جو درج ذیل ہے:

لکن کثرۃ الطرق تدل علی ان للقصۃ اصلاً ۔

لیکن طریق ہائے روایت کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ضرور ہے۔

آگے کہتے ہیں:

اس قصے کے دوطریق روایت اور بھی ہیں جو دونوں صحیح السند ہیں (اگرچہ) مرسل ہیں لیکن ان دونوں کے راوی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے معیار پر اترتے ہیں۔ ( رجالھا علی شرط الصحیحین

ملاحظہ ہو فتح الباری ۔

اس قصے کی صحت و بطلان کے بارے میں مختصر یہ ہے کہ منھا علیھا شواہد ۔ اس کے من گھڑت ہونے پر خود اسی قصے میں کئی شواہد موجود ہیں:

i۔ پہلا شاہد تو یہ ہے کہ اس قصے کے ہجرت حبشہ کے ساتھ مربوط ہونے کی بنا پر سورہ نجم ۵ سنہ نبوی میں نازل ہوا ہے۔ آیت میں شیطان کی طرف سے آمیزش پر عتاب سورہ بنی اسرائیل میں اس واقعے کے چھ سال بعد آتا ہے چونکہ سورہ بنی اسرائیل معراج کے بعد نازل ہوا اور معراج سنہ۱۱ نبوی میں ہوئی ہے۔ شیطانی آمیزش کو منسوخ کرنے کا اعلان سورہ حج میں ہوتا ہے جو سال اول ہجرت یا آواخر نبوی میں نازل ہوا ہے یعنی شیطان کی طرف سے آمیزش کے ۹ سال بعد۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ۹ سال تک شیطان کی آمیزش کو برقرار رکھا گیا ہو؟

ii۔ دوسرا شاہد خود سورہ نجم کا سیاق و سباق ہے کہ بتوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے: یہ بت صرف نام ہیں جو تم اور تمہارے آباء و اجداد نے گھڑ لیے ہیں۔ اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ یہ لوگ (بتوں کو معبود بنا کر) صرف گمان اور خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کلام کے اثنا میں اس جملے کا کوئی ربط بنتا ہے؟: ’’یہ بلند پایہ بت ہیں جن سے شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔‘‘

بھلا جو بت من گھڑت اور بے حقیقت اور صرف نام ہیں انہیں اسی عبارت میں بلند پایہ اور شفاعت کے اہل قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور کیا اس تضاد بیانی پر مشرکین خوش ہو سکتے ہیں؟

iii۔ یہ قصہ خود آیات کے سیاق و سباق کے خلاف ہے۔ آیات کا سیاق یہ ہے: شیطان تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی تمنا اور آرزو میں دخل اندازی کرتا رہا ہے اور اللہ اس دخل اندازی کو بے اثر کرتا رہا۔ شیطان کی طرف سے یہ دخل اندازی مریض اور سخت دل لوگوں کے لیے آزمائش بھی رہی اور اہل علم کے لیے شیطان کی یہی دخل اندازی حق کی دلیل ثابت ہوئی یعنی شیطان کا یہ عمل کھرے اور کھوٹے کو جدا کرنے کا سبب بھی رہا۔

آیت کی تعبیر اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ’’شیطان نے نبی اور رسول کی تمنا میں دخل اندازی کی ہے۔‘‘ القی الشیطان فی کلماتہ فی کلامہ ۔ نبی یا رسول کے کلام اور بیان احکام میں دخل اندازی کا ذکر نہیں ہے اور ایسا ممکن بھی نہیں ہے چونکہ قرآن رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معجزہ ہے اور معجزہ میں شیطان کی دخل اندازی قابل تصور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو کوئی ایسا معجزہ دے جو خود محفوظ رہنے میں عاجز ہو۔ چنانچہ ہم نے عدم تحریف پر اسی بات سے استدلال کیا ہے کہ قرآن معجزہ ہے اور معجزہ میں تحریف ناممکن ہے۔

iv۔ یہ قصہ قرآن کریم کی دیگر آیات سے بھی متصادم ہے۔ سورۃ الحاقۃ آیت ۴۴ تا ۴۶ میں فرمایا:

وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ

اور اگر اس (نبی) نے کوئی تھوڑی بات بھی گھڑ کر ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے، پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔

سورہ حجر آیت ۴۲ سورہ نحل آیت ۹۹ اور سورہ بنی اسرائیل آیت ۶۵ میں فرمایا کہ شیطان کو اللہ کے خاص بندوں پر بالادستی نہیں ہے۔

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ

جو میرے بندے ہیں ان پریقینا تیری بالادستی نہ ہو گی سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔

و دیگر آیات کی تصریح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات ہی اور ہے اللہ کے دیگر خاص بندوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا ہے۔


آیت 54