آیت 37
 

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمۡ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اور (اے رسول) آپ نیکی کرنے والوں کو بشارت دیں ۔

تفسیر آیات

۱۔ لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا: جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ وہ قربانی کے گوشت کو کعبہ کے پاس لا کر رکھتے اور قربانی کے خون کو کعبہ کی دیواروں پر ملتے تھے۔ اس طرح وہ خیال کرتے تھے کہ ایسا کرنے سے یہ گوشت اور خون اللہ کو پہنچ جاتا ہے۔ اس جاہلانہ توہم کو دور کرتے ہوئے فرمایا: ان جانوروں کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا، نہ اللہ ان چیزوں کا محتاج ہے۔

۲۔ وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی: باین معنی کہ تقویٰ کے ساتھ انجام پانے والے اعمال اللہ تک پہنچتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ قربانی پیش کرنے کا اصل محرک ایثار ہے اور ایثار تقویٰ ہے۔ اللہ کے پاس وہ عمل پہنچتا ہے جو تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ انجام پایا ہو۔ تقویٰ یعنی جو عمل محرمات سے بچا کر بجا لایا جاتا ہے وہ اللہ تک پہنچ جاتا ہے، اسے اللہ وصول یعنی قبول فرماتا ہے۔ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ ۔ (۵ مائدہ:۲۷۹) اللہ صرف تقویٰ والوں کا عمل قبول فرماتا ہے۔ تقویٰ کے بغیر کا مطلب یہ ہو گا کہ اس عمل کی انجام دہی میں تقویٰ یعنی محرمات سے بچاؤ اور پرہیز نہیں ہے۔

۳۔ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمۡ: یہ قربانی تمہارے اختیار میں دی گئی تھی۔ اس الٰہی اکرام کے شکرانے میں قربانی پیش کرنا تقویٰ ہے۔

۴۔ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ: تاکہ تم اس تسخیر کے شکرانے اور اس ہدایت کی قدردانی کے طور پر اللہ کی کبریائی کا اظہار کرو۔

۵۔ وَ بَشِّرِ الۡمُحۡسِنِیۡنَ: تقویٰ کا مالک ہی نیکی کے درجے پر فائز ہو سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ قربانی تقویٰ کی بنیاد پر قبول ہوتی ہے۔

۲۔ قربانی دیتے ہوئے اللہ کی کبریائی کا اظہار ہونا چاہیے۔


آیت 37