آیت 35
 

الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَصَابَہُمۡ وَ الۡمُقِیۡمِی الصَّلٰوۃِ ۙ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ جن کا یہ حال ہے کہ جب اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپنے لگتے ہیں اور وہ مصیبت پر صبر کرنے والے ہوتے ہیں اور نماز قائم کرنے والے ہوتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

تشریح کلمات

وَجِلَتۡ:

( و ج ل ) الوجل ، خوف کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ: جن کے دلوں میں غیر اللہ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ وہ محب اور مخلص ہوتے ہیں۔ یاد خدا سے ان کے دل لرز جاتے ہیں۔ اس شعور کی وجہ سے کہ اللہ کی بندگی کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ اس معرفت کی وجہ سے جس سے عظمت خالق ان کے دلوں میں جاگزیں ہے۔ اس قرب کی وجہ سے جو انہیں اللہ کے ساتھ حاصل ہے۔ جس قدر قرب زیادہ ہو گا عظمت کا ادراک زیادہ ہو گا۔ اس ایمان کی وجہ سے جس کے کمال پر فائز ہونے سے حقائق کا مشاہدہ ہوتا ہے اور حقیقت حال کا مشاہدہ کرنے والے خائف ہوتے ہیں۔ غافل کی طرح بے پرواہ نہیں ہوتے۔

۲۔ وَ الصّٰبِرِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَصَابَہُمۡ: زندگی مشکلات و مسائل کے ساتھ تصادم کا نام ہے اور مؤمن زیادہ آزمائش میں مبتلا رہتا ہے۔ اس صورت میں اگر وہ اللہ کے لیے مخلص ہے تو یہ اخلاص صبر لاتا ہے۔ ’’صابرین کی جہاں بینی ‘‘ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۱۵۶ کے ذیل میں۔

۳۔ وَ الۡمُقِیۡمِی الصَّلٰوۃِ: اقامہ نماز اور انفاق در راہ خدا کا تعلق بھی اخلاص سے ہے جو واضح ہے۔

اہم نکات

۱۔ دل میں اگر صرف خدا ہو تو اللہ کی عظمت سے خائف رہتا ہے۔

۲۔ خوف خدا، صبر، اقامہ نماز اور انفاق خلوص دل کی علامتیں ہیں۔


آیت 35