آیت 34
 

وَ مَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ ﴿۳۴﴾

۳۴۔ ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی انسان کو حیات جاودانی نہیں دی تو کیا اگر آپ انتقال کر جائیں تو یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے؟

تفسیر آیات

مشرکین اس انتظار میں تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے اولاد ہیں، ان کے دنیا سے جانے کے بعد ہمارے معبودوں کے خلاف اسلامی تحریک بھی ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ وہ کہتے تھے:

نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیۡبَ الۡمَنُوۡنِ (۵۲ طور: ۳۰)

ہم اس کے بارے میں گردش زمانہ (موت) کے منتظر ہیں۔

۱۔ وَ مَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ: بشر زمانے کی زد میں ہے اور جو چیز بھی زمانے کی زد میں ہو گی اس کے لیے دوام نہیں ہے۔ جس کی کوئی ابتدا ہے، اس کی انتہا بھی ہے۔

آیت کے اس جملے سے حضرت خضر علیہ السلام کی حیات کی نفی نہیں ہوتی چونکہ اس آیت میں دوام ( خلود ) کی نفی ہو رہی ہے، طول العمری کی نہیں۔ چنانچہ ایک دن حضرت خضر علیہ السلام نے بھی موت کا سامنا کرنا ہے۔ مِّنۡ قَبۡلِکَ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے بعد کسی بشر کو حیات جادوانی مل جائے گی۔

۲۔ اَفَا۠ئِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ: اے رسول اگر آپ نے اس دنیا سے جانا ہے تو کیا یہ مشرکین ہمیشہ رہیں گے؟ ان مشرکوں نے بھی مرنا اور نابود ہونا ہے۔

اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسلامی تحریک کے لیے دوام کی بشارت ہے۔

اہم نکات

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شماتت کرنے والوں کے لیے پیغام موت ہے۔

۲۔ دنیاوی زندگی میں کسی کے لیے بھی خلود کا تصور نہیں ہے۔


آیت 34