آیات 204 - 206
 

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّعۡجِبُکَ قَوۡلُہٗ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یُشۡہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیۡ قَلۡبِہٖ ۙ وَ ہُوَ اَلَدُّ الۡخِصَامِ﴿۲۰۴﴾

۲۰۴۔ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں آپ کو پسند آئے گی اور جو اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ بنائے گا حالانکہ وہ سخت ترین دشمن ہے۔

وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الۡاَرۡضِ لِیُفۡسِدَ فِیۡہَا وَ یُہۡلِکَ الۡحَرۡثَ وَ النَّسۡلَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡفَسَادَ﴿۲۰۵﴾

۲۰۵۔ اور جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو سرتوڑ کوشش کرتا پھرتا ہے کہ زمین میں فساد برپا کرے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کر دے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتۡہُ الۡعِزَّۃُ بِالۡاِثۡمِ فَحَسۡبُہٗ جَہَنَّمُ ؕ وَ لَبِئۡسَ الۡمِہَادُ﴿۲۰۶﴾

۲۰۶۔ اور پھر جب اس سے کہا جائے: خوف خدا کرو تو نخوت اسے گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے، پس اس کے لیے جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

تشریح کلمات

اَلَدُّ:

( ل د د ) دشمنی رکھنے والا۔ جھگڑالو۔

الۡعِزَّۃُ:

( ع ز ز ) غرور اور نخوت کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

اگرچہ یہ آیات ایک منافق اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئیں اور اس شخص کے اندر وہی مذموم اوصاف موجود تھے جو آیت میں مذکور ہیں۔ لیکن تفسیری اصول میں ایک کلیہ ہے: فَانّ الاعتبارَ بِعُمُوْمِ الْلَفْظِ لَا بِخُصُوصِ السَبَبِ ۔ {بحار الانوار ۶۳ : ۱۲۱} لفظ کے عموم کا اعتبار کیا جاتا ہے، سبب کے خاص ہونے کا نہیں۔ بنابریں اگرچہ ممکن ہے کہ آیت کے نزول کا سبب کوئی خاص بات ہو، لیکن تعبیر اور الفاظ عام ہیں۔ اس اعتبار سے یہ آیت ہر اس شخص سے متعلق ہے جس میں درج ذیل اوصاف پائے جاتے ہوں:

۱۔ جو اپنے آپ کو بہت زیادہ خیر خواہ ظاہر کرتا ہو۔ جیسا کہ استعمار اور اکثر حکمران اپنے آپ کو عوام کا خیر خواہ اور سچا خادم ظاہر کرتے ہیں۔

۲۔ جھوٹی قسمیں زیادہ کھاتا ہو۔

۳۔ جب بھی کوئی اقتدار یا موقع میسر ہو تو فتنہ و فساد برپا کرے۔

۴۔ جس پر نصیحتوں کا منفی اثر پڑتا ہو اور جو حق کے سامنے جھک جانے کو عار و ننگ سمجھے۔

یہ ایک ایسے انسان کا نمونہ ہے جو پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا ہوا ہے۔

تحقیق مزید:

آیت ۲۰۴ : مستدرک الوسائل ۱۲ : ۱۰۱، شرح نہج البلاغۃ ابن الحدید ۴ : ۷۲۔

آیت ۲۰۶: بحار الانوار ۷۱ : ۱۸۴، تفسیر الامام ص ۶۱۷


آیات 204 - 206