آیات 24 - 25
 

فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحۡتِہَاۤ اَلَّا تَحۡزَنِیۡ قَدۡ جَعَلَ رَبُّکِ تَحۡتَکِ سَرِیًّا﴿۲۴﴾

۲۴۔ فرشتے نے مریم کے پائین پا سے آواز دی: غم نہ کیجیے! آپ کے رب نے آپ کے قدموں میں ایک نہر جاری کی ہے۔

وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا ﴿۫۲۵﴾

۲۵۔ اور کھجور کے تنے کو ہلائیں کہ آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔

تشریح کلمات

سَرِیًّا:

( س ر ی ) السری ۔ چشمہ، نہر۔ حدیث میں آیا ہے: مثل الصلوۃ کمثل السری علی باب احدکم ۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی شریف، بلند درجہ کے ہیں یعنی عیسی علیہ السلام۔

جَنِیًّا:

( ج ن ی ) تازہ پھل جو حال ہی میں توڑا گیا ہو۔

تفسیر آیات

فَنَادٰىہَا: پائنتی سے مریم کو پکارا۔ پکارنے والا کون تھا؟ اکثر کے نزدیک جبرئیل یا فرشتے تھے۔ بعض کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔ اس پر قرینہ مِنۡ تَحۡتِہَاۤ (پائنتی سے) کو قرار دیتے ہیں کہ اس وقت حضرت مریم علیہا السلام کی پائنتی میں نومولود حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس مرحلہ میں کوئی کلام کیا ہو۔

بہرحال کلام کا مضمون یہ ہے: غم نہ کر تیرے رب نے تیرے نیچے چشمہ پیدا کیا ہے۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو غم اپنی بدنامی کا تھا۔ تسلی کے لیے چشمے کی نوید سنائی جا رہی ہے اور کھانے کے لیے تازہ کھجور کی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بدنامی سے بچنے کے لیے پہلے کوئی سبیل بیان فرما دیتا بعد میں کھانے کی خبر سنا دیتا۔

جواب یہ ہے کہ بدنامی سے بچنے کا مسئلہ اگرچہ حضرت مریم علیہا السلام کے لیے کھانے پینے کے مسئلے سے زیادہ سنگین تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے چشمے اور تازہ کھجور فراہم کر کے مریم سلام اللہ علیہا کو یہ جتایا کہ تیرا رب تیرے چھوٹے مسائل میں تجھ پر نظر رکھتا ہے۔ جہاں وہ تیرے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے وہاں تجھے بدنامی کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔

وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ: کھجور کے تنے کو ہلانے کے حکم میں اس بات کی تصریح ہے کہ اگر کوئی عمل انسان خود انجام دے سکتا ہے، اسے اللہ خود انسان پر چھوڑ دیتا ہے۔


آیات 24 - 25