آیت 188
 

وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۸﴾٪

۱۸۸۔اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ ہی اسے حکام کے پاس پیش کرو تاکہ تمہیں دوسروں کے مال کا کچھ حصہ دانستہ طور پر ناجائز طریقے سے کھانے کا موقع میسر آئے۔

تشریح کلمات

مال:

( م ی ل ) میل سے مراد قلبی رجحان اور رغبت ہے۔ چنانچہ مال اس چیز سے عبارت ہے جس سے رغبت ہو جائے۔

بَاطِل:

( ب ط ل ) حق کی ضد۔ جلد زائل ہونے والی چیز۔

لَا تَاۡکُلُوۡۤا

( أ ک ل ) یہاں کھانے سے مراد ہر قسم کا تصرف ہے۔ چنانچہ ہر زبان میں یہ محاورہ مستعمل ہے کہ لباس مکان وغیرہ پر مال خرچ ہوا ہو تو کہتے ہیں: اس نے اتنا مال کھایا۔

تُدۡلُوۡا

( د ل و ) ادلاء یعنی کنویں سے پانی نکالنے کے لیے ڈول کو روانہ کرنا۔ یہاں پر یہ لفظ حکام کے پاس مال روانہ کرنے کے لیے استعمال ہو اہے۔

تفسیر آیات

اس آیت سے درج ذیل احکام سامنے آتے ہیں:

۱۔ حکام کو رشوت دے کر مال کھانے کی کوشش نہ کرو۔

۲۔ حکام کی عدالت کے ذریعے ناحق دوسروں کا مال نہ کھاؤ۔ یعنی اگر تمہیں علم ہے کہ یہ مال حرام ہے تو خواہ عدالت تمہارے حق میں فیصلہ دے، پھربھی تمہارے لیے وہ مال حرام ہے کیونکہ عدالت ظاہری شواہد پر عمل کرتی ہے اور تم حقیقت حال کے ذمہ دار ہو،خصوصاً جب تمہیں اس چیز کا علم بھی ہو۔

۳۔ اس آیت اور دیگر متعدد آیات سے انفرادی ملکیت ثابت ہو تی ہے کہ لوگ اپنے اموال کے مالک ہوتے ہیں۔ دوسروں کے لیے ان پر ناحق قبضہ کرنا جائز نہیں ہے۔ حدیث میں مذکور ہے :

حُرْمَۃُ مَالِ الْمُسْلِمِ کَحُرْمَۃِ دَمِہِ ۔ {بحار الانوار ۲۹ : ۴۰۷}

مال مسلم کی وہی حرمت ہے جو اس کے خون کی ہے۔

احادیث

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

فَاَمَّا الرَّشَا فِی الْحُکْمِ فَھُوَ الْکُفْرُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ ۔ {اصول الکافی ۵ : ۱۲۷}

(عدالتی) فیصلوں میں رشوت لینا خدائے عظیم سے کفر برتنے کے مترادف ہے۔

اہم نکات

۱۔ مال مسلم کا احترام واجب ہے: وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ ۔۔۔

۲۔ اخلاقی اقدار مادی اقدار پر مقدم ہیں : وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ ۔۔۔۔

تحقیق مزید: الکافی۵ : ۱۲۲، ۷ : ۴۱۱


آیت 188