آیت 182
 

فَمَنۡ خَافَ مِنۡ مُّوۡصٍ جَنَفًا اَوۡ اِثۡمًا فَاَصۡلَحَ بَیۡنَہُمۡ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۸۲﴾٪

۱۸۲۔ البتہ جو شخص یہ خوف محسوس کرے کہ وصیت کرنے والے نے جانبداری یا گناہ کا ارتکاب کیا ہے، پھر وہ آپس میں صلح کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

جَنَفًا:

( ج ن ف ) راہ راست سے منحرف ہونا۔

تفسیر آیات

وصیت میں بالمعروف یعنی نیکی اور مناسبت پر مبنی ہونا شرط ہے۔ لہٰذا اگر وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں عدل و انصاف سے انحراف کرتا ہے اور کسی ایک سے جانبداری برتتا ہے یا کسی ناجائز چیز کے لیے وصیت کرتا ہے۔ یعنی راہ عصیان میں وصیت کرتا ہے تو اس صورت میں آپس میں ہونے والے فسادات کو ختم کرنے اور صلح و صفائی پیدا کرنے کے لیے وصیت کو بدل دیتا ہے تو اس تبدیلی میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

جَنَف یہ ہے کہ وارثین میں سے کچھ کو سارا ترکہ وصیت کر کے دے دے اور باقی کو محروم رکھے۔ یہاں فَاَصۡلَحَ بَیۡنَہُمۡ کا مقام ہے۔

اِثم یعنی گناہ کے موارد کے لیے وصیت کرے۔ مثلاً یہ وصیت کرے کہ میرے مال کا ایک حصہ شراب کشید کرنے کے کارخانے پر صرف کیا جائے۔

چند وضاحتیں

۱۔ بعض مفسرین وصیت کو ایک وقتی حکم قرار دیتے اور کہتے ہیں کہ آیۂ میراث سے پہلے وصیت کا حکم نافذ تھا جو بعد میں آیۂ میراث کے ذریعے منسوخ ہوگیا۔ دیگر مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ احکام وصیت اب بھی اسلامی شریعت کا حصہ ہیں اور یہی مؤقف درست ہے۔

۲۔ مرنے والے کی کل جائیداد کے ایک تہائی حصے میں وصیت کارگر اور نافذ ہو گی۔ دو تہائی حصہ ورثاء کا حق ہوگا۔

۳۔ احکام میراث اور احکام وصیت کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نہایت جامع اور حکیمانہ قانون سامنے آتا ہے کہ مرنے والے کے رشتہ داروں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو وراثت کے حقدار ہیں اور کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو وراثت کے حقدار نہیں بن سکتے۔ مثلاً وہ پوتے اور نواسے جن کے ماں باپ، دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں۔ ان کے لیے وصیت ایک جائز اور معقول ذریعہ ہے نیزاگر انسان مال کثیر چھوڑ کر جا رہا ہو تو مال کا ایک حصہ کار خیر و صدقہ جاریہ کے لیے وصیت کر سکتا ہے۔ غرض مرنے والے کے اموال کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے دو تہائی قانون وراثت کے تحت وارث لے جائیں گے، مرنے والا چاہے یا نہ چاہے اور ایک تہائی حصہ وصیت کے ذریعے اپنی مرضی سے کسی کو دیا جا سکتا ہے۔

احادیث

اسلامی تعلیمات میں وصیت کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اس سلسلے میں بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مَنْ لَمْ یُوَصِّ عِنْدَ مَوْتِہٖ لِذَوِی قَرَابَتِہٖ مِمَّنْ لَا یَرِثُہُ فَقَدْ خَتِمَ عَمَلُہٗ بِمَعْصِیَّۃِ ۔ {الوسائل ۱۹ : ۲۶۳}

جو شخص اپنی موت کے وقت اپنے ان رشتہ داروں کے لیے جو اس کے وارث نہیں بن سکتے، وصیت نہیں کرتا تو اس نے اپنے اعمال کا خاتمہ معصیت پر کیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی تعلیمات میں عدل وانصاف کو ہر چیز پر فوقیت حاصل ہے۔

۲۔ قانون وصیت میں موصی اور ورثاء دونوں کی مصلحت اورحقوق کو جمع کیا گیا ہے۔

۳۔ خرابیوں کی اصلاح مداخلت بے جا نہیں، بلکہ مغفرت اور رحمت کا باعث ہے۔

تحقیق مزید: الکافی ۷ : ۲۱، الوسائل ۱۹ : ۲۷۵ اذا زاد علی الثلث و ص ۳۵۰۔


آیت 182