آیت 61
 

وَ لَوۡ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِظُلۡمِہِمۡ مَّا تَرَکَ عَلَیۡہَا مِنۡ دَآبَّۃٍ وَّ لٰکِنۡ یُّؤَخِّرُہُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اور اگر لوگوں کے ظلم کی وجہ سے اللہ ان کا مواخذہ کرتا تو روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا، لیکن اللہ انہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے پس جب ان کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو وہ نہ گھڑی بھر کے لیے پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

تفسیر آیات

کرہ ارض میں کون سا خطہ ہے جس میں ہر گھڑی بدترین جرائم کا ارتکاب نہیں ہوتا، انسانیت کا خون نہیں ہوتا۔ ہر طاقتور، کمزوروں کے ساتھ درندگی نہیں کرتا۔ عصمتیں نہیں لٹتیں۔ احکام الٰہی پامال نہیں ہوتے۔ ان جرائم کا اگر فوری مؤاخذہ کیا جاتا تو روئے زمین پر کوئی ظالم زندہ نہ بچتا۔ ظالم کے نہ ہونے سے کوئی مظلوم بھی نہ ہوتا۔ مظلوم کے نہ ہونے کی وجہ سے انصاف کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ انحراف نہ ہونے کی وجہ سے ہدایت دہندہ کی بھی ضرورت نہ ہوتی۔ نتیجتاً زمین کی پشت پر کوئی انسان مکلف نہ ہوتا۔ اگر دَآبَّۃٍ سے مراد انسان لیا جائے۔ اگر دَآبَّۃٍ سے مراد تمام جاندار لیے جائیں تو کہا جا سکتا ہے کہ تمام حیوانات انسان کے لیے مسخر ہیں۔ جب انسان ہی نہیں ہے تو حیوان بھی بے معنی ہو جائیں گے۔

لیکن اللہ تعالیٰ حلیم ہے۔ ان تمام جرائم و مظالم کے باوجود اپنی حکمت کے تحت ان کو ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے۔ یہ مہلت توبہ کرنے والوں کے لیے رحمت اور نافرمانی کرنے والوں کے لیے مزید عقوبت کی موجب ہے اور جب مہلت کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو اس میں تقدیم و تاخیر ممکن نہیں ہے۔

بعض مفسرین دَآبَّۃٍ سے مراد صرف ظالم انسان لیتے ہیں۔ یعنی مَّا تَرَکَ عَلَیۡہَا مِنۡ ظالم ہے اور ظالم کو انسان کہنے کی جگہ دَآبَّۃٍ کہا ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان ظلم و زیادتی کی وجہ سے بنیادی طور پر ہلاکت کا مستحق ہے۔

۲۔ ظلم کے باوجود مہلت دینا اللہ کی رحمت اور حکمت ہے۔


آیت 61