آیات 38 - 39
 

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ ۙ لَا یَبۡعَثُ اللّٰہُ مَنۡ یَّمُوۡتُ ؕ بَلٰی وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ اور یہ لوگ اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں: جو مر جاتا ہے اسے اللہ زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں (اٹھائے گا)؟ یہ ایک ایسا برحق وعدہ ہے جو اللہ کے ذمے ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

لِیُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیۡ یَخۡتَلِفُوۡنَ فِیۡہِ وَ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰذِبِیۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔ تاکہ اللہ ان کے لیے وہ بات واضح طور پر بیان کرے جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں اور کافر لوگ بھی جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔

تفسیر آیات

حیات بعد الموت تخلیق، تکلیف اور آزمائش کا عقلی لازمہ ہے۔ اگر جزا و سزا کا کوئی دن نہ ہوتا تو مومن اور کافر، ظالم اور مظلوم میں کوئی فرق نہ ہوتا:

اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ﴿﴾ (۳۲ سجدہ: ۱۸)

بھلا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

جس نے انسانیت کے خون سے ہولی کھیلی ہو وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے انسانیت کی خدمت کی ہے۔ اگر ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے تو اس زندگی کا کھلونا ہونا لازم آتا ہے۔ اسی لیے قیامت میں جزا و سزا کا نظام اللہ کے ذمے ہے نیز اللہ نے وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

روز قیامت کی حکمتوں میں سے ایک اہم حکمت یہ ہے کہ اس دن حق و باطل خیر و شر اور ہدایت و ضلالت کے سلسلے میں حقائق سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔ دنیا میں لوگ ان چیزوں میں اختلاف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کے ذریعے ان اختلافی باتوں میں سے حق کو کھول کر بیان فرماتا ہے لیکن اسے دنیا میں دلیل و برہان کے ساتھ بیان کیا ہے، آخرت میں شہود و عیان کے ساتھ بیان ہو گا:

لَقَدۡ کُنۡتَ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا فَکَشَفۡنَا عَنۡکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الۡیَوۡمَ حَدِیۡدٌ﴿﴾ (۵۰ ق: ۲۲)

بے شک تو اس چیز سے غافل تھا چنانچہ ہم نے تجھ سے تیر پردہ ہٹا دیا ہے لہٰذا آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔

اہم نکات

۱۔ حیات بعد الموت ایسا لازمی امر ہے جو اللہ کے ذمے ہے: وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا ۔۔۔۔

۲۔ قیامت کے دن حقائق سے پردہ اٹھ جائے گا: وَ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا ۔۔۔۔


آیات 38 - 39