آیات 69 - 70
 

وَ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ بِالۡبُشۡرٰی قَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنۡ جَآءَ بِعِجۡلٍ حَنِیۡذٍ﴿۶۹﴾

۶۹۔اور جب ہمارے فرشتے بشارت لے کر ابراہیم کے پاس پہنچے تو کہنے لگے: سلام، ابراہیم نے (جواباً) کہا: سلام، ابھی دیر نہ گزری تھی کہ ابراہیم ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔

فَلَمَّا رَاٰۤ اَیۡدِیَہُمۡ لَا تَصِلُ اِلَیۡہِ نَـکِرَہُمۡ وَ اَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۰﴾

۷۰۔ جب ابراہیم نے دیکھا ان کے ہاتھ اس (کھانے ) تک نہیں پہنچتے تو انہیں اجنبی خیال کیا اور ان سے خوف محسوس کیا، فرشتوں نے کہا: خوف نہ کیجیے ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

تشریح کلمات

حَنِیۡذٍ:

( ح ن ذ ) بھنا ہوا۔

تفسیر آیات

حضرت نوح علیہ السلام کے بعد آنے والے سلسلۂ انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے۔ ھود و صالح علیہما السلام کے بعد حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک اہم واقعے کا بھی ذکر آیا۔ دونوں ابنیاء کے معاصر ہونے کی وجہ سے واقعات کا بھی ایک دوسرے کے ساتھ ربط ہے۔

۱۔ وَ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ: اللہ تعالیٰ کی طرف سے چند ایک فرشتے زمین کی طرف نازل ہوتے ہیں اور ان کو زمین پر بسنے والی دو قوموں کے ساتھ کام تھا۔ ایک خاندان ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جن کو بہت بڑی بشارت دینی ہے اور دوسرا قوم لوط کے ساتھ، جسے صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔

۲۔ قَالُوۡا سَلٰمًا: یہ فرشتے بشری شکل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں داخل ہوتے ہوئے سلام کرنا نہ صرف تمام ادیان میں رائج ایک سنت ہے بلکہ آسمانی فرشتوں کی ثقافت کا بھی حصہ ہے اور اہل بہشت کے درمیان بھی ایک دوسرے کو سلام کرنے کا رواج عام ہو گا:

اِلَّا قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا﴿﴾ (۵۶ واقعہ: ۲۶)

ہاں ! سلام سلام کہنا ہو گا۔

۳۔ مَا لَبِثَ اَنۡ جَآءَ: ان فرشتوں کو عام مہمان سمجھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی پزیرائی کا اہتمام کیا اور ایک بھنا ہوا بچھڑا تیار کر کے ان کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کر کے کنعان کے سر سبز صحراؤں میں رہائش پذیر تھے جہاں افزائش حیوانات کے لیے ماحول سازگار تھا۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس زمانے میں بھی بھنا ہوا گوشت کھانا رائج تھا اور چند مہمانوں کے لیے ایک بچھڑے کا تیار کرنا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ضیافت کی فیاضی کا پتہ ملتا ہے وہاں اس زمانے کی سطح زندگی کا بھی کچھ اندازہ ہوتا ہے۔

۴۔ فَلَمَّا رَاٰۤ اَیۡدِیَہُمۡ لَا تَصِلُ: جب دیکھا یہ مہمان کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا رہے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ان سے متوحش ہوئے اور ان کو اجنبی خیال کرتے ہوئے خوف محسوس کیا۔ یہ خوف ان کے اجنبی محسوس ہونے کے بعد دل میں آیا ہے۔ ایسا نہ تھا کہ کھانا نہ کھانے سے حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ فرشتے ہیں اور فرشتے انسانی شکل میں غیر معمولی حالات ہی میں آیا کرتے ہیں جیسا کہ بعض اہل قلم نے خیال کیا ہے بلکہ سیاق آیت سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ خوف اجنبی خیال کرنے پر آیا تھا۔ آگے آیت اس مسئلے میں خاموش ہے کہ اجنبی خیال کرنے پر خوف کیوں آیا۔ ممکن ہے وجہ وہی ہو جو اکثر مفسرین نے بتائی ہے کہ کھانا نہ کھانے پر یہ شبہ ہوا کہ کہیں دشمنی کے ارادے سے تو نہیں آئے۔ اس لیے نمک کھانا نہیں چاہتے۔ بعد میں فرشتوں کے اظہار سے معلوم ہوا کہ وہ اللہ کے فرستادہ ہیں جو قوم لوط پر عذاب نازل کرنے کی مسؤلیت کے ساتھ بھیجے گئے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ مہمان نوازی اخلاق انبیاء ہے: جَآءَ بِعِجۡلٍ حَنِیۡذٍ ۔

۲۔ مہمان کی پزیرائی میں دیر نہیں کرنا چاہیے: فَمَا لَبِثَ ۔۔۔۔

۳۔ سلام کرنا سنت انبیاء و ملائکہ ہے۔


آیات 69 - 70