آیات 26 - 30
 

سَاُصۡلِیۡہِ سَقَرَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ عنقریب میں اسے آگ (سقر) میں جھلسا دوں گا۔

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا سَقَرُ ﴿ؕ۲۷﴾

۲۷۔ اور آپ کو کس چیز نے بتایا سقر کیا ہے ؟

لَا تُبۡقِیۡ وَ لَا تَذَرُ ﴿ۚ۲۸﴾

۲۸۔ وہ نہ باقی رکھتی ہے نہ چھوڑتی ہے۔

لَوَّاحَۃٌ لِّلۡبَشَرِ ﴿ۚۖ۲۹﴾

۲۹۔آدمی کی کھال جھلسا دینے والی ہے ۔

عَلَیۡہَا تِسۡعَۃَ عَشَرَ ﴿ؕ۳۰﴾

۳۰۔ اس پر انیس (فرشتے) موکل ہیں۔

تشریح کلمات

سَاُصۡلِیۡہِ:

( ص ل ی ) الاصلاء آگ میں تپا دینے کے معنوں میں ہے۔ کہتے ہیں: صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا۔

لَوَّاحَۃٌ:

( ل و ح ) لوّحہ الحر اسے گرمی نے جھلس دیا۔ لَوَّاحَۃٌ جھلسا دینے والی۔

تفسیر آیات

۱۔ دنیا میں یہ اپنی عیاری دکھائے، آخرت میں اسے میں جہنم کی آگ میں جھلسا دوں گا۔

۲۔ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا سَقَرُ: آپ کیا جانیں یا آپ کو کس نے بتایا کہ سَقَرُ کیا چیز ہے۔ سَقَرُ جہنم کی ہولناکی بیان کرنے کے لیے یہ انداز کلام اختیار کیا جاتا ہے۔ مَاۤ اَدۡرٰىکَ کے لفظ کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ حاقہ: ۳

۳۔ لَا تُبۡقِیۡ وَ لَا تَذَرُ: یہ آگ جہنمی کے لیے کسی چیز کو بھی نہیں رہنے دے گی۔ نہ زندگی ہے، نہ زندگی سے متعلق کوئی چیز۔ ہر چیز سلب کرنے کے باوجود بھی موت نہیں آئے گی۔ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی۔۔۔۔ (۲۰ طٰہ: ۷۴)

۴۔ لَوَّاحَۃٌ لِّلۡبَشَرِ: یہ سقر کھال کو بھی جھلسا دینے والی ہے۔ اس کا ذکر خاص کر اس لیے آیا کہ کھال سے انسان کی شکل و صورت بنتی ہے، شناخت ہوتی ہے۔ جسم پر کھال نہ ہو اور تمام اندرونی شکل نمایاں ہو جائے تو شکل نہایت بدنما اور ڈراؤنی ہو جاتی ہے۔

۵۔ عَلَیۡہَا تِسۡعَۃَ عَشَرَ: اس پر انیس (فرشتے) موکل ہیں۔ اگرچہ اس آیت میں تصریح نہیں ہے کہ یہ موکل، فرشتے ہیں لیکن دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے یہ فرشتے ہیں:

عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ۔۔۔۔ (۶۶ تحریم: ۶)

اس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں۔

ابن عباس راوی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ جہنم پر اُنیس فرشتے موکل ہیں تو ابوجہل نے قریش سے کہا: کیا تم میں سے دس افراد ایک داروغہ کو قابو نہیں کر سکیں گے۔ ان میں ایک طاقتور شخص ابو الاسد جمحی نے کہا: ان میں سے سترہ کو تو میں اکیلا قابو کر لوں گا۔ باقی دو کو تم قابو کر لو۔ اسی طرح ۱۹ کی تعداد تمسخر کا موضوع بن گئی اور کفار کے لیے آزمائش بھی۔


آیات 26 - 30