آیت 22
 

فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ﴿۲۲﴾

۲۲۔ پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ: جب تمہارے ایمان کا یہ حال اور حکم عدولی کا یہ عالم ہے تو سے فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ اور قطع رحمی کے سوا کیاتوقع کی جا سکتی ہے۔ دوسری تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ تم کبھی برسر اقتدار آئے تو تم سے فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ اور قطع رحمی کے علاوہ کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ بعض نے تَوَلَّیۡتُمۡ کے معنی منہ پھیرنے اور بعض نے برسراقتدار آنے کے کیے ہیں۔

تَوَلَّیۡتُمۡ: التولی ولایت و حکومت کے معنوں میں زیادہ قرین سیاق ہے چونکہ حکمرانوں سے فساد فی الارض کا ارتکاب ہوا کرتا ہے اور اپنی کرسی و اقتدار کے لیے قریبی ترین رشتہ داروں کا بھی خون کرتے ہیں۔

چنانچہ چشم جہاں نے دیکھ لیا جب حکومت بنی امیہ کے ہاتھ آئی تو انہوں نے نہ کسی چھوٹے پر رحم کیا، نہ بڑے پر، نہ صلہ رحمی کا خیال رکھا۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نشاندہی فرمائی کہ فساد پھیلانے اور قطع رحمی کرنے والے کون ہیں:

ھم ھذا الحی من قریش اخذ اللہ علیہم ان ولوا الناس ان لا یفسدوا فی الارض ولا یقطعوا ارحامہم۔ ( تفسیر قرطبی وغیرہ)

یہ مفسدین قریش کا ایک قبیلہ ہے۔ ان سے اللہ نے عہد لیا ہے کہ اگر وہ لوگوں کے حاکم بن جائیں تو زمین پر فساد نہ پھیلائیں اور قطع رحمی نہ کریں۔

دیگر متعدد روایات میں اس قبیلے کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رأی رسول اللہ بنی امیۃ ینزون علی منبرہ نزو القردۃ فساء ہ فما استجمع ضاحکاً حتی مات۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے منبر پر بنی امیہ اس طرح چھل کود کر رہے تھے جس طرح بندر اچھل کود کرتے ہیں۔ آپ پر یہ بات اتنی دشوار گزری کہ اس کے بعد تاحیات آپ نے تبسم نہیں فرمایا۔

اس مضمون کی روایات کے راوی ہیں: سھل بن سعد، سعید بن المسیب، یعلی بن مرۃ، ابن عمر ۔

حضرت عائشہ نے مروان بن حکم سے فرمایا:

سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لابیک وجدک انکم الشجرۃ الملعونۃ فی القرآن۔ ( روح المعانی، الدرالمنثور ذیل آیت ۶۰، سورہ بنی اسرائیل )

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیرے باپ اور تیرے دادا کے بارے میں یہ کہتے سنا ہے تم وہ شجرہ ملعونہ ہو جو قرآن میں مذکور ہے۔

واضح رہے کہ مروان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے شہر بدر کیا تھا۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھے یہی مروان بعد میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی جاگیر فدک کا مالک بن جاتا ہے۔ بعد میں تو یہی لوگ منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مالک بن گئے۔

رأیت الدھر یرفع کل وغد و یخفض کل ذی شیم شریفہ ( ابن الرومری۔ شرح نہج البلاغۃ ۳: ۳۴۷)

میں نے دیکھا ہے کہ زمانہ ہر نالائق کو بلند کرتا اور ہر شریف صفت کو گراتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ سچ فرمایا صادق آل محمد علیہ السلام نے کہ سورہ محمد کی ایک آیت ہماری شان میں اور ایک آیت ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے۔


آیت 22