آیت 29
 

فَمَا بَکَتۡ عَلَیۡہِمُ السَّمَآءُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَا کَانُوۡا مُنۡظَرِیۡنَ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ پھر نہ آسمان و زمین نے ان پر گریہ کیا اور نہ ہی وہ مہلت ملنے والوں میں سے تھے۔

تفسیر آیات

فرعون اور آل فرعون جب اقتدار پر تھے تو سب ان کے قصیدہ خواں تھے۔ جب وہ غرق آب ہوئے تو نہ چشم فلک نے گریہ کیا، نہ زمین کے کسی قطعہ نے آہ و فغاں کیا۔ چونکہ نہ چشم فلک نے اس کی کوئی نیکی دیکھی تھی، نہ زمین کا کوئی قطعہ ایسا تھا جس پر اس سے کوئی کارخیر صادر ہوا ہو۔

چنانچہ حدیث میں آیا ہے: انس نے روایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما من مومن الا و لہ باب یصعد منہ عملہ وباب ینزل منہ رزقہ فاذا مات بکیا علیہ۔ (مجمع البیان اور الدرالمنثور عن الترمذی)

ہر مومن کے لیے ایک دروازہ ہے جس سے اس کا عمل اوپر جاتا ہے اور ایک دروازے سے اس کی روزی نیچے آتی ہے۔ جب یہ مومن فوت ہو جاتا ہے تو یہ دونوں دروازے اس پر گریہ کرتے ہیں۔

الدرالمنثور میں آیا ہے:

ان یحیی بن زکریا لما قتل احمرت السماء و قطرت دما و ان حسین بن علی یوم قتل احمرت السماء۔

جب یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) قتل ہوئے تو آسمان سرخ ہو گیا اور خون کی بارش ہوئی اور جب حسین بن علی (علیہما السلام) قتل ہوئے تو آسمان سرخ ہو گیا۔

ابن ابی حاتم زید بن زیاد سے روایت کرتے ہیں:

لما قتل الحسین احمرت آفاق السماء اربعۃ اشھر۔ (الدرالمنثور ذیل آیت)

جب حسین بن علی (علیہما السلام) قتل ہوئے تو چار ماہ تک آسمان کے آفاق و اطراف سرخ رہے۔


آیت 29