آیات 25 - 27
 

کَمۡ تَرَکُوۡا مِنۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ وہ لوگ کتنے ہی باغات اور چشمے چھوڑ گئے،

وَّ زُرُوۡعٍ وَّ مَقَامٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ اور کھیتیاں اور عمدہ محلات،

وَّ نَعۡمَۃٍ کَانُوۡا فِیۡہَا فٰکِہِیۡنَ ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ اور نعمتیں جن میں وہ مزے لیتے تھے،

تفسیر آیات

دریائے نیل کی وجہ سے مصر ایک زراعتی ملک تھا۔ ہر طرف باغات تھے اور نیل سے نکلنے والی نہریں۔ ممکن ہے ان نہروں کو عُیُوۡنٍ (چشمے) فرمایا ہو۔ مقام کریم کا مطلب عمدہ محلات ہیں۔ کریم قابل ستائش کو کہتے ہیں۔ ہر چیز کی ستائش اسی کے مطابق ہوتی ہے۔ محلات اگر عمدہ اور آرام دہ ہوں تو وہ قابل ستائش ہیں، خواہ ان میں کوئی جابر اور سرکش رہتا ہو۔ تلوار اگر عمدہ ہے تو قابل ستائش ہے خواہ اس سے کسی مومن کا گلا کاٹ دے۔

وَّ نَعۡمَۃٍ کَانُوۡا: جن نعمتوں میں یہ لوگ نازاں تھے ان سب سے ہاتھ اٹھانا پڑا اور آخر میں سمندر کی تہ میں وہ مچھلیوں کے لیے خوراک اور نعمت بن گئے۔


آیات 25 - 27