آیات 74 - 76
 

اِنَّ الۡمُجۡرِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوۡنَ ﴿ۚۖ۷۴﴾

۷۴۔ جو لوگ مجرم ہیں یقینا وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں رہیں گے۔

لَا یُفَتَّرُ عَنۡہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡہِ مُبۡلِسُوۡنَ ﴿ۚ۷۵﴾

۷۵۔ ان سے (عذاب میں) تخفیف نہ ہو گی اور وہ اس میں مایوس پڑے رہیں گے۔

وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡا ہُمُ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی ظالم تھے۔

تشریح کلمات

لَا یُفَتَّرُ:

( ف ت ر ) الفتور کے معنی تیزی کے بعد ٹھہرنے، سختی کے بعد نرم، قوت کے بعد کمزور پڑ جانا کے ہیں۔

مُبۡلِسُوۡنَ:

( ب ل س ) الابلاس کے معنی سخت ناامیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اہل تقویٰ کے مقابلے اہل جرم آتے ہیں۔ مجرم کافر بھی ہوتا ہے اور مسلم یعنی کلمہ گو بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ تاریخ میں کلمہ گو مجرمین کی لمبی فہرست موجود ہے۔ وہ جہنم میں ہوں گے۔ عذاب کی سنگینی یہ ہے کہ وہ اس عذاب میں الی الابد دائماً رہیں گے۔

اس سوال کا پہلے بھی جواب دیا گیا ہے کہ جرم محدود، عذاب لا محدود کیوں ہے؟ جواب یہ ہے:

اولاً: مجرم سے جرم ختم نہیں ہوا، خود مجرم ختم ہو گیا۔ مر گیا۔

ثانیاً: جرم و سزا میں مدت برابر نہیں ہوا کرتی۔ گولی سے ایک شخص کو قتل کرنے پر کم از کم عمر قید کی سزا کیوں؟ جب کہ اس کے قتل پر دس سیکنڈ لگے تھے۔

ثالثا: مجرم کو خوداس کا جرم عذاب دیتا ہے۔ اس کے جرم کا عمل انرجی ہے جسے دوام حاصل ہے۔ لہٰذا اگر انسان کا عمل اچھا ہے تو وہ اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اگر برُا ہے تو اس کی جان نہیں چھوڑتا۔

۲۔ لَا یُفَتَّرُ عَنۡہُمۡ: عذاب کی سنگینی میں یہ بات بھی ہے کہ اس عذاب میں تخفیف نہیں ہو گی۔ اگر کوئی عذاب دے رہا ہے تو کسی وقت تخفیف ہو سکتی ہے لیکن اگر اس کے عمل سے عذاب ہو رہا ہے تو اس میں تخفیف نہیں ہوتی۔

عذاب کی سنگینی میں تیسری بات یہ ہو گی کہ اس عذاب سے نجات کی کوئی امید نہ ہو گی۔

۳۔ وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ: یہ سب کچھ ان مجرمین کا اپنا کیا دھرا ہے۔ ان کے اپنے اعمال کی طرف سے ہے۔ اللہ کی طرف سے ان کے ساتھ کوئی زیادتی ناانصافی نہیں ہوتی۔


آیات 74 - 76