آیات 46 - 47
 

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَقَالَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا، پس موسیٰ نے کہا: میں رب العالمین کا رسول ہوں۔

فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِاٰیٰتِنَاۤ اِذَا ہُمۡ مِّنۡہَا یَضۡحَکُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ پس جب وہ ہماری نشانیاں لے کر ان کے پاس آئے تو وہ ان نشانیوں پر ہنسنے لگے۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف اس لیے بھیجا چونکہ باقی لوگ اپنی ذاتی و استقلالی فکری حیثیت نہیں رکھتے تھے سب فرعون اور اس کے درباریوں کے تابع تھے۔

۲۔ فَقَالَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ: حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے بے سہارا فرعون جیسے طاغوت کے سامنے ایسی بات کرتا ہے جو اس کے تخت و طاغوت کے خلاف ہے۔ اس کے خلاف حضرت موسیٰ کا یہ کہنا میں عالمین کے رب کا نمائندہ ہوں فرعون کی سلطنت کے غیر قانونی ہونے کا اعلان تھا۔

اس میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تسلی اور مشرکین کے اس قول کا جواب ہے کہ اللہ نے طائف اور مکے کے کسی بڑے آدمی کو اپنا نمائندہ کیوں نہیں بنایا؟

۳۔ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ: چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر بھی وہ متاثر ہونے کی جگہ معجزات کا تمسخر اڑاتے تھے۔ ان لوگوں کی منطق بھی طبقاتی بنیادپر قائم تھی جو آج کے مشرکین کی ہے۔


آیات 46 - 47