آیت 44
 

وَ اِنَّہٗ لَذِکۡرٌ لَّکَ وَ لِقَوۡمِکَ ۚ وَ سَوۡفَ تُسۡـَٔلُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ اور یہ (قرآن) آپ کے اور آپ کی قوم کے لیے ایک نصیحت ہے اور عنقریب تم سب سے سوال کیا جائے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِنَّہٗ: اور جو وحی آپ کی طرف کی جا رہی ہے اس میں قرآن کے ساتھ وہ دستور حیات اور جامع نظام زندگی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے انسان کی سعادت کے لیے دیا گیا ہے۔

۲۔ لَذِکۡرٌ لَّکَ: اے رسول! یہ وحی آپ کے لیے عزت و شرف کا باعث ہے۔ چنانچہ اس ذکر کو اللہ نے اپنے ذکر کے ساتھ بلندی عنایت فرمائی: وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ۔ (۹۴ الشرح: ۴) اور یہ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرۂ ارض کے ہر خطے میں پانچ وقت اللہ کے ذکر کے ساتھ بلند ہوتا ہے۔

۳۔ وَ لِقَوۡمِکَ: اور جس قوم کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں اس کے لیے یہ باعث عزت و شرف ہے۔ چنانچہ جمود کی شکار ایک گمنام قوم آج دنیا میں امت مسلمہ کے عنوان سے ایک فکری و علمی مقام رکھتی ہے۔

آیت کی نظر اس امت کے مستقبل پر ہو سکتی ہے۔ یہ امت مسلمہ مستقبل میں اس کرۂ ارض کی واحد مقتدر امت ہو گی:

لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔۔۔۔ (۶۳ منافقون: ۸)

عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے۔

۴۔ وَ سَوۡفَ تُسۡـَٔلُوۡنَ: اس وحی کے بارے میں سوال ہو گا۔ رسول سے سوال ہو گا: کیا آپ نے وحی لوگوں تک پہنچا دی؟ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ۔ (۷ اعراف: ۶) ہم مرسلین سے سوال کریں گے۔ امت سے بھی سوال ہو گا: کیا تم نے اس پر لبیک کہا اور اس پر عمل کیا؟

حسکانی نے شواہد التنزیل ۴: ۲۱۶ میں جابر بن عبد اللّٰہ انصاری سے روایت کی ہے:

وَ اِنَّہٗ لَذِکۡرٌ لَّکَ وَ لِقَوۡمِکَ ۚ وَ سَوۡفَ تُسۡـَٔلُوۡنَ﴿﴾ عن محبۃ علی بن ابی طالب۔

تم سے علی بن ابی طالب کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔


آیت 44