آیت 30
 

وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿ؕ۳۰﴾

۳۰۔ اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ: سے مراد معصیت ہے اور خطاب ان لوگوں سے ہے جو معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں خواہ مسلم ہوں یا کافر اور مصیبت سے مراد سزائے معصیت ہے۔

معصوم اور غیر مکلف اطفال اس میں شامل نہیں ہیں۔ یہ آیت صرف گناہگاروں کے بارے میں ہے کیونکہ معصوم سے معصیت سرزد نہیں ہوتی اس لیے ان پر جو مصیبت آتی ہے وہ سزائے معصیت نہیں ہے۔

دوسرے لوگوں کے بارے میں فرمایا: جو آفت تم پر آتی ہے وہ خود تمہارے برے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اس آیت و دیگر متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی اعمال و کردار اور کائنات پر حاکم نظام فطرت میں ایک گہرا ربط ہے:

وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ۔ (۷ اعراف: ۹۶)

اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

۲۔ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ: اور بہت سی معصیتوں کے اثرات کو اللہ مٹا دیتا ہے۔

وَ لَوۡ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِظُلۡمِہِمۡ مَّا تَرَکَ عَلَیۡہَا مِنۡ دَآبَّۃٍ۔۔۔۔۔ (۱۶ نحل: ۶۱)

اور اگر لوگوں کے ظلم کی وجہ سے اللہ ان کا مواخذہ کرتا تو روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا۔

حدیث نبوی ہے:

من عفی عنہ فی الدنیا عفی عنہ فی الاخرۃ و من عوقب فی الدنیا لم تثنی علیہ العقوبۃ فی الآخرۃ۔ ( زبدۃ التفاسیر)

جو دنیا میں بخشا جاتا ہے وہ آخرت میں بھی بخشا جاتا ہے اور جسے دنیا میں سزا دی گئی اسے دوبارہ آخرت میں سزا نہیں ملتی۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے۔

ھذہ ارجی آیۃ للمؤمنین فی القرآن۔ ( زبدۃ التفاسیر ملا فتح اللہ کاشانی ۶: ۲۲۶)

یہ آیت مؤمنوں کے لیے قرآن کی امید افزا ترین آیت ہے۔


آیت 30