آیت 27
 

وَ لَوۡ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزۡقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنۡ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیۡرٌۢ بَصِیۡرٌ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق میں فراوانی کر دیتا تو وہ زمین میں سرکش ہو جاتے لیکن اللہ جو چاہتا ہے وہ ایک مقدار سے نازل کرتا ہے، وہ اپنے بندوں سے خوب باخبر، نگاہ رکھنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزۡقَ لِعِبَادِہٖ: عام حالات میں رزق کی فراوانی کا نتیجہ سرکشی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت کے وافر ہونے کی وجہ سے انسان کی خوابیدہ خواہشات بیدار ہو جاتی ہیں اور انسان میں موجود خواہشات درندہ صفت ہوتی ہیں۔ دولت کی فراوانی سے یہ درندہ بے لگام ہو جاتا ہے جیسا کہ فرمایا:

کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی﴿﴾اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی (۹۶ علق: ۶۔۷)

ہرگز نہیں انسان تو یقینا سرکشی کرتا ہے۔ اس بات پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے: بہت سے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں ان کے رزق میں فراوانی ہے اور سرکشی بھی ہے۔ جواب یہ ہے: آیت میں لِعِبَادِہٖ سے مراد خاص بندے ہیں جن کی مصلحت میں رزق کی فراوانی نہیں ہے۔ ان پر اللہ مہربانی فرماتا ہے۔ دولت کی فراوانی کے عذاب میں نہیں ڈالتا جب کہ بعض لوگوں کو اللہ دولت کی فروانی کے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے تو اس سرکشی کی وجہ سے ان کی آخرت بھی خراب ہو جاتی ہے اور اسی دولت کی وجہ سے دنیا میں بے سکون ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:

و ان من عبادی من لا یصلحہ الا الغنی فلو افقرتہ لأفسدہ ذلک و ان من عبادی من لا یصلحہ الا الفقر فلو اغنیتہ لافسدہ ذلک۔ ( مجمع البیان۔ عوالی اللئالی ۲: ۱۰۸)

میرے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کی مصلحت دولتمندی میں ہے اگر انہیں فقیر بنا دوں تو غربت انہیں بگاڑ دے گی۔ میرے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ غربت ہی ان کی مصلحت میں ہے کہ اگر میں انہیں دولتمند بنادوں تو دولت انہیں خراب کر دے گی۔

۲۔ وَ لٰکِنۡ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُ: مگر اپنی حکیمانہ مشیت اور بندوں کی مصلحت کے مطابق روزی عنایت فرماتا ہے لہٰذا بعض کے لیے دولت دینا نعمت ہے اور دیگر بعض کے لیے دولت دینا عذاب ہے اور بعض دیگر کے لیے دولت نہ دینا نعمت ہے۔

لوگوں میں موجود خصلتوں میں جو فرق ہے اس کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

وَ لَو عَلِمَ النَّاسُ اَنَّ اللہَ عزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ ھَذَا الْخَلْقَ عَلَی ہَذَا لَمْ یَلُمْ اَحَدٌ اَحَداً۔ (الکافی۲: ۴۴)

اگر لوگوں کو علم ہو جائے کہ اللہ نے مخلوق کو کس طرح خلق فرمایا ہے تو کوئی بھی کسی کی ملامت نہ کرتا۔


آیت 27