آیات 23 - 25
 

اِنَّ ہٰذَاۤ اَخِیۡ ۟ لَہٗ تِسۡعٌ وَّ تِسۡعُوۡنَ نَعۡجَۃً وَّ لِیَ نَعۡجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۟ فَقَالَ اَکۡفِلۡنِیۡہَا وَ عَزَّنِیۡ فِی الۡخِطَابِ﴿۲۳﴾

۲۳۔ یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے، یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالے کرو اور گفتگو میں مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔

قَالَ لَقَدۡ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعۡجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡخُلَطَآءِ لَیَبۡغِیۡ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِیۡلٌ مَّا ہُمۡ ؕ وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسۡتَغۡفَرَ رَبَّہٗ وَ خَرَّ رَاکِعًا وَّ اَنَابَ ﴿ٛ۲۴﴾

۲۴۔ داؤد کہنے لگے: تیری دنبی اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے یقینا یہ تجھ پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان رکھتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں، پھر داؤد کو خیال آیا کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے چنانچہ انہوں نے اپنے رب سے معافی مانگی اور عاجزی کرتے ہوئے جھک گئے اور (اللہ کی طرف) رجوع کیا۔

فَغَفَرۡنَا لَہٗ ذٰلِکَ ؕ وَ اِنَّ لَہٗ عِنۡدَنَا لَزُلۡفٰی وَ حُسۡنَ مَاٰبٍ﴿۲۵﴾

۲۵۔ پس ہم نے ان کی اس بات کو معاف کیا اور یقینا ہمارے نزدیک ان کے لیے تقرب اور بہتر بازگشت ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اس مقدمے کو اس انداز سے پیش کیا گیا کہ انسانی احساسات کو جھنجھوڑا جائے اور جذبات میں لا کر فیصلہ لیا جائے۔ انتہائی ناانصافی ہے کہ ننانوے (۹۹) والا دوسرے کے ایک کو بھی ہتھیانا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ انسانی جذباتی پہلو کو ابھارنے میں کامیاب ہو گئے اور حضرت داؤد علیہ السلام نے جذباتی فیصلہ دے دیا۔

۲۔ وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ:ــــــــــــ ظن بھی علم ہے۔ جب حضرت داؤد علیہ السلام نے دیکھا تو یہ تو میرا امتحان ہو گیا۔ یہ کسی نزاع کا مسئلہ نہ تھا بلکہ میری آزمائش کے لیے ایک تمثیلی صورت تھی جو فرشتوں نے صرف مجھے آزمانے کے لیے پیش کی تھی۔

کیا یہ آزمائش کسی حقیقی نزاع کی قضاوت کے بارے میں تھی؟ـ اور وہ خطا جو حضرت داؤد علیہ السلام سے سرزد ہوئی، کیا تھی؟ اس بارے میں مفسرین میں بڑا اختلاف ہے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی روایت کے مطابق ان کی خطا یہ تھی کہ انہیں خیال آیاکہ شاید مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی نہیں۔ اس پر حضرت داؤد علیہ السلام کی آزمائش کے لیے دو فرشتے آئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے مدعی کا بیان سنتے ہی اس کے حق میں فیصلہ دے دیا اور مدعی سے گواہ طلب نہ کیا۔ یہ عمل اللہ کو پسند نہ آیا۔۔

بائیبل میں حضرت داؤد علیہ السلام پر یہ بہتان لگایا ہے کہ آپؑ نے اوریا کی بیوی سے معاذ اللہ ناجائزتعلقات رکھے۔ پھر اوریا کو ایک جنگ میں روانہ کر کے ہلاک کروایا۔ پھر اس کی بیوی سے نکاح کیا۔ اور لکھا ہے کہ یہی عورت حضرت سلیمان علیہ السلام کی ماں ہیں۔

غیر شیعہ مصادر میں تقریباً یہی روایت سوائے زنا کے الزام کے مذکور ہے جو اسرائیلیات کا ایک حصہ ہے۔

شیعہ مصادرمیں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

لا اوتی برجل یزعم ان داؤد ع تزوج بامرأۃ أوریا الا جلدتہ حدین حدا للنبوۃ و حدا للاسلام۔ ( متشابہ القرآن ۱: ۲۵۰)

اگر میرے پاس وہ شخص لایا جائے جو یہ کہتا ہو داؤد نے اوریا کی بیوی سے شادی کی ہے میں اس پر کوڑوں کی دو حدیں جاری کروں گا۔ ایک نبوت کی، دوسری اسلام کی۔

دوسری روایت میں فرمایا:

میں اس پر ایک سو ساٹھ کوڑے ماروں گا جو انبیاء پر بہتان لگانے کی سزا ہے۔ ( زبدۃ التفسیر ۶: ۲۳)

بائیبل کی الزام تراشی کے پیچھے اصل واقعہ کیا تھا؟ وہ ایک روایت میں ملتا ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے:

حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں شوہر کے مرنے اور قتل ہونے کے بعد عورت شادی نہیں کر سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی بار حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے یہ شادی جائز قرار دی۔ اس حکم کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام نے اوریا کے قتل اور عدت پوری ہونے کے بعد عقد کیا۔ تو لوگوں کے لیے یہ عقد اوریا کے قتل سے زیادہ سنگین ہو گیا۔ ( عیون الاخبار ۱: ۴)


آیات 23 - 25