آیات 21 - 22
 

وَ ہَلۡ اَتٰىکَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِ ۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ اور کیا آپ کے پاس مقدمے والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں داخل ہوئے؟

اِذۡ دَخَلُوۡا عَلٰی دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنۡہُمۡ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ۚ خَصۡمٰنِ بَغٰی بَعۡضُنَا عَلٰی بَعۡضٍ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَنَا بِالۡحَقِّ وَ لَا تُشۡطِطۡ وَ اہۡدِنَاۤ اِلٰی سَوَآءِ الصِّرَاطِ﴿۲۲﴾

۲۲۔ جب وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرا گئے، انہوں نے کہا:خوف نہ کیجیے، ہم نزاع کے دو فریق ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے لہٰذا آپ ہمارے درمیان برحق فیصلہ کیجیے اور بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیجئے۔

تفسیر آیات

کیا آپ کے پاس مقدمے والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں داخل ہوئے۔ جب وہ داؤد کے پاس آگئے تو وہ ان سے گھبرا گئے انہوں نے کہا خوف نہ کیجیے ہم نزاع کے دو فریق ہیں۔ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے لہٰذا آپ ہمارے درمیان فیصلہ کیجیے، بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیجیے۔

ان آیات میں چند ایک نکات وضاحت طلب ہیں:

i۔ ان دونوں کے دیوار پھاند کر خلوت کے وقت حضرت داؤد علیہ السلام کی خدمت میں بلا اجازت داخل ہونے کی وجہ کیا تھی؟ کیا عام طریقے سے اجازت لے کر اپنا مقدمہ پیش کرتے تو مناسب نہ تھا؟

اس سوال کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ مقدمے کی نوعیت عام اور معمولی نہ تھی۔ ایک خصوصی مسئلہ تھا جو حضرت داؤد علیہ السلام سے متعلق تھا۔ جیسے بعد میں اس کی وضاحت ہو گی۔

ii۔ فَفَزِعَ: حضرت داؤد علیہ السلام جیسے بہادر ان دو آدمیوں سے خوف زدہ کیسے ہو گئے کہ ان دونوں کو لَا تَخَفۡ کہنا پڑا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ کسی موذی سے ضرر کا احساس، خوف ہے جو ایک قدرتی امر ہے اور یہ احساس انسان کے انسانی شعور کا لازمہ ہے۔ یہ قابل مذمت نہیں ہے۔ ایک گرنے والی دیوار سے ہٹ جانا مذموم نہیں ہے۔ آگے فریقین میں سے ایک فریق اپنا مقدمہ پیش کرتا ہےـ:


آیات 21 - 22